نئی دہلی :(ایجنسی )
ملک میں گیان واپی سے لے کر قطب مینار میں مورتیوں تک تنازع چل رہا ہے۔ ایسے میں آج تک نے مصنف اور مورخ ایس عرفان حبیب سے ان دونوں مسائل پر بات چیت کی۔ ایس عرفان حبیب نے کہا کہ تاریخ نے کبھی انکار نہیں کیا کہ مسجدیں مندر گرا کر بنائی گئیں، یہ سب باتیں تاریخ میں درج ہیں۔ جو دعوے کیے جا رہے ہیں وہ پہلی بار سامنے آ رہے ہیں۔ یہ سب من گھڑت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار پورا ڈھانچہ گرا دیا جائے۔ اسے منہدم کر کے دیکھ لیں۔ سب کچھ سامنے آجائے گا۔ اتنی بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ دعویٰ غلط ہے کہ سب کچھ پہلی بار کہا اور پتہ چل رہا ہے۔ مورخین کو اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ مسجدیں مندروں کو گرا کر بنائی گئی تھیں۔ اگر تاریخ میں جائیں تو اورنگ زیب کے بہت سے فرامین ہیں جن کے بارے میں مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مندر گرائے گئے اور وہاں مسجدیں بنائی گئیں۔ مندر بھی کیوں گرائے گئے؟ اس کی اپنی ایک الگ تاریخ بھی ہے۔
تاریخ میں سب کچھ درج ہے، کوئی نئی بات نہیں
ایس عرفان حبیب کہتے ہیں کہ اس دور میں جو کچھ ہوا، وہ سب تاریخ میں درج ہے، لیکن آج یہ دعویٰ کہ یہ پہلی بار لوگوں کو بتایا جا رہا ہے اور مورخین نے کچھ نہیں بتایا، یہ سب غلط ہے۔ یہ سب باتیں تاریخ میں پہلے سے درج تھیں۔ بات یہ ہے کہ آپ تاریخ میں کتنا پیچھے جانا چاہتے ہیں؟ آپ قرون وسطیٰ میں رہ کر واپس کیوں نہیں جاتے؟
برہمن حکمران شونگا نے بدھ مت کے وہارتوڑے
انہوں نے کہا کہ اگر آپ خود تاریخ کو درست کرنا چاہتے ہیں تو آپ بدھ مت کے دور میں جائیں۔ جہاں اشوک کے بعد پشیامتر شونگا تھا جو ایک برہمن تھا اور اشوک کا درباری تھا۔ جب اس کے پاس حکومت آئی اور سلطنت قائم ہوئی تو اس نے تمام بدھ مت خانقاہوں کو تباہ کر دیا، یہ سب کچھ تاریخ میں بھی درج ہے۔ لیکن یہ ووٹ بینک کا مسئلہ نہیں ہے۔
تو مسلمان نے شیولنگ کی بہت عزت کی
حبیب نے کہا کہ آپ کو ہندو مسلم تنازع کی تاریخ بنانا ہوگی اور یہ دکھانا ہوگا کہ قرون وسطی کے ہندوستان میں کچھ نہیں ہوا۔ سوائے ہندو مسلم اور مندر توڑنے کے۔ انہوں نے گیان واپی کیس میں کہا کہ یہ شیولنگ کیسے ہو سکتا ہے اور جہاں 400 سال سے مسجد چل رہی ہے وہاں وہ کیسے رہے؟ اگر مسلمان چاہتے تو اسے ختم کر سکتے تھے۔ وہ شیولنگ کیسے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں ۔ یعنی مسلمانوں ن اس کی بڑی عزت کی اور اس کو قائم رکھا۔
گیان واپی میں کوئی شیولنگ نہیں ہے، صرف فوارہ ہے
انہوں نے کہا لیکن وہ شیولنگ نہیں ہے۔ یہ صرف ایک فوارہ ہے اور بڑی مساجد میں جگہ جگہ فوارے ملیں گے۔ میرٹھ میں ہماری فوج والی مسجد ہے،وہاں پر بھی فوارہ ہے، جتنی بھی بڑی مساجد ہیں جہاں جگہ ہے، وہاں وضو کے لئے جگہ بنائی جاتی ہے اور بیوٹی فیکشن کے لئے فاؤنٹین لگایا جاتا ہے اور یہ اسی طرح کا فوارہ ہے ۔
عرفان حبیب نے بتایا کہ وہ فوارہ کافی عرصے سے بند ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس کافی نیچے تک سیک ڈال کر دیکھا ہے، لیکن شیولنگ اس طرح نہیں ہوتاہے۔ یہ فوارہ اب بہت سالوں سے فعال نہیں ہے اور ہمار ے بہت سارے فوارے بند پڑے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات مانی جاتی ہے کہ اس دور میں بہت سے مندروں کو گرا کر اس پر مسجدیں بنائی گئیں۔ کیونکہ وہ اپنا اختیار دکھانے کے لیے مندر توڑکر مسجد بناتے تھے۔
ان ہندو حکمرانوں نے تومندر بھی توڑ ے
بہت سے ہندو بادشاہ ہیں جنہوں نے یہ کام بھی کیا۔ وہ بھی اپنی طاقت دکھانا چاہتے تھے۔ جن کو وہ شکست دیتے تھے، وہ اپنے پسندیدہ دیوتا کے مندر کو توڑ کر اپنے دیوتا کو نصب کرتے تھے۔ لیکن اس وقت یہ ایک روایت تھی۔ کشمیر کا ایک بادشاہ ہرش تھا جو تاریخ میں پہچانا جاتا ہے۔ اس نے بہت سے مندروں کو تباہ کیا۔ چولا راجاؤں نے بنگال کے فوجی خاندان پر حملہ کیا اور حملے کے بعد تمام مندروں کو تباہ کر دیا اور وہاں سے کچھ مورتیاں لے کر جنوبی ہندوستان چلے گئے۔ جبکہ دونوں ہندو تھے۔
قطب مینار میں سب کچھ لکھا ہوا ہے
آج کی جدید تاریخ میں یہ کہنا کہ ہم دعویٰ کریں گے یہ سیاست کے سوا کچھ نہیں۔ حبیب نے قطب مینار کو بتایا کہ قطب مینار پر قطب الدین ایبک کا اپنا لکھا ہوا نوشتہ ہے جس میں لکھا ہے کہ مسجد مندر توڑنے کے بعد بنائی گئی تھی اور اے ایس آئی کی جانب سے بھی لکھا ہوا ہے اس لیے اس میں کوئی انکشاف نہیں ہے جو یہ دعویٰ کر رہے ہیں۔ ہم نے نکالا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے قطب مینار کو وشنو ستمبھ کہنا شروع کر دیا ہے جو غلط ہے۔
تو ملک کے تمام ڈھانچے توڑ کر دیکھ لیجئے
قطب مینار کی تاریخ قطب مینار خود بتاتی ہے اور اس پر سب کچھ لکھا ہوا ہے۔ یہ نئے مواد سے بنا ہواہے۔ یہ مندروں کی باقیات سے بنا ہے۔ کون جانتا ہے کہ کس کے نیچے کیا ہے؟ بتایا جا رہا ہے کہ جامع مسجد کے نیچے کچھ ہے۔ اب ایسے تمام ڈھانچے کو تباہ کر دیں۔ تاج محل-لال قلعہ کو تباہ کریں۔ جامع مسجد کو گرا کر باہر نکالو اور دیکھو جو کچھ ملے گا وہ سامنے آئے گا۔ یہ یونیسکو کی ثقافتی ورثہ ہے۔ اور دنیا کو اچھی لگتی ہے۔ دوسرے لوگوں نے یہ کیا ہے تو آپ بھی کریں۔
یہ تمام تعمیرات ملک کا ورثہ ہیں
آپ یہ سب آج کے مسلمانوں پر کیوں مسلط کر رہے ہیں؟ یہ مسلمانوں کی میراث نہیں ہے۔ یہ ہمارے ملک کا ورثہ ہیں۔ یہ مخلوط ورثہ ہیں۔ جو اچھی طرح چلا گیا ایک بری بات ہوئی۔ جس دور میں آپ جا رہے ہیں وہ صرف ہندو مسلم نہیں ہے بلکہ اس دور میں رام چرت مانس لکھا گیا جسے تلسی داس نے لکھا۔ اکبر کے درباری عبدالرحیم خانخانہ اور تلسی داس ایک دوسرے کے دوست تھے۔ تلسی داس پر برہمنوں کا الزام تھا کہ اگر آپ سنسکرت سے ہندی میں ترجمہ کر رہے ہیں تو عام لوگ بھی پڑھیں گے۔ جب کہ اکبر کے درباری نے تلسی داس کی مالی مدد بھی کی۔ اس دور میں مہابھارت کا ترجمہ فارسی میں ہوا لیکن یہ سب آپ کو نظر نہیں آتا۔