تحریر: پرمودملک
ضلع درنگ کے سپا جھر علاقے میں جمعرات کو انسداد تجاوزات مہم کے دوران جو کچھ ہوا وہ آسام پولیس کے کردار پر تو سوال اٹھاتا ہی ہے ، یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر احتجاج ومظاہرے کررہی بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لیے مقرر کردہ پروٹوکول پر عمل پولیس نے کیوں نہیں کیا؟
کیا پولیس اہلکار متعصب تھے اور مظاہرین کو مظالم کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ ایک خاص کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے؟ کیا پولیس کی کمان سنبھال رہے شخص کے سیاسی رابطہ ہونے کی وجہ سے تمام پولیس اہلکار پوری طرح مطمئن تھے ۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کی ’ تجاوزات ہٹاؤ مہم ‘ کے پیچھے سیاسی پولرائزیشن بڑھانے کی حکمت عملی ہے اور آسام بی جے پی کا ایک تجربہ گاہ بن رہاہے ؟
ستیہ ہندی کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو ہوئی پولیس کارروائی کی ویڈیو دیکھنے سے ان میں سے کئی سوالات کےجواب مل جاتے ہیں ۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین میں سے ایک شخص ہاتھ میں ڈنڈا لئے آگے بڑھتا ہے ، تقریباً 20 پولیس اہلکار اسے دوڑاتے ہیں، چاروں طرف سے گھیر کر لاٹھیوں کی برسات کردیتے ہیں ، وہ زمین پر گرتا ہے اور اس کے بعداسے لاٹھیوں سے بری طرح مارا جاتا ہے ۔
اس کے بعد پولیس انتظامیہ کی طرف سے تعینات ایک فوٹو گرافر تیزی سے دوڑتا ہوا آتا ہے اور اوپر اچھل کر زمین پر پڑے ہوئے مظاہرین کےاوپر کودتا ہے اور پھر لاتوں سے تب تک مارتا ہے ،جب تک اسے ایسا کرنےسے روک نہیں لیا جاتا ہے ۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر میں مظاہرین کے سینہ پر گولیوں کے نشان نظر آتا ہے، سمجھا جاتا ہے کہ وہ مر گیا ہے، حالانکہ آسام پولیس نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
پولیس نے اس کیمرہ مین کو گرفتار کر لیا ہے۔ آسام کے ڈائریکٹر جنرل پولیس بھاسکر جیوتی مہنتا نے ٹویٹ کیا کہ کیمرہ مین بیجے بونیا کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔بیجے بونیا سپا جھرکے دھول پور گاؤں کا رہنے والا ہے ۔
سوشل میڈیا ان سے جڑے ٹویٹس اور تصاویر سے بھر پڑاہے ، جس میں وہ پولیس اہلکاروں اور ضلع انتظامیہ کی سرکاری گاڑی کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ ہجوم مشتعل ہو گیا تھا اور ایک آدمی کے ہاتھ میں لاٹھی تھی تو پولیس نے بھیڑ پر قابو پانے کے لیے ہوا میں فائرنگ کیوں نہیں کی؟ اگر پولیس کو فائرنگ کرنی تھی تو پھر مظاہرین کے پاؤں کو نشانہ بنانے کے بجائے ان کے سینے کو نشانہ کیوں بنایا گیا؟
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جس درنگ پولیس نے یہ زیادتی کی، اس کے سپرنٹنڈنٹ سشانت بسوا سرما وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما کے حقیقی بھائی ہیں؟
ہمنت بسوا سرما نے پولیس کارروائی کے پہلے دن ٹویٹ کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ خوش ہیں کہ پولیس اپنا کام کر رہی ہے۔ اتنی بڑی واردات ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ نے ٹویٹ کیا کہ پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ آسام میں بی جے پی حکومت اسے سیاسی مسئلہ بنانا چاہتی ہے اور اسی بنیاد پر اسے پولرائز کرنا چاہتی ہے۔ اس کا منصوبہ یہ ہے کہ بی جے پی بنگلہ دیشی دراندازوں کے نام پر یہاں کے مسلمانوں کو نشانہ بنانا چاہتی ہے تاکہ پوری ریاست کے ہندوؤں کو یہ اشارہ دیا جائے کہ پارٹی ہندو مفادات اور ریاست کے مقامی لوگوں سے ہمدردی رکھتی ہے۔ آسام بی جے پی آسام کو پوروانچل کی اپنی تجربہ گاہ بنانا چاہتی ہے۔
(بشکریہ: ستیہ ہندی ڈاٹ کام )