میں پانچ منٹ فون کال یا گھر سے دس منٹ کی ویڈیو کال کاانتظار کرتا ہوں، لیکن جیسے ہی بات کرنا شرع کرتا ہوں، وقت ٹک ٹک کرکے گزر تا ہے، اس سے پہلے میں نے ہر سکینڈ کی قدر محسوس نہیں کی ۔ تہاڑ جیل میں کو وڈ کے سبب کو آرنٹین میں رہنے کی مدت ختم ہونے کے دو دن بعد میں نے شریک ملزم نتاشا کے والد مہاویر ناروال کے کورونا وائرس کی وجہ سے موت کی خوفناک خبر پڑھی۔میں انہیں نہیں جانتا لیکن گزشتہ موسم سرما میں نتاشا کی گرفتاری کے بعد جو انٹرویو دیا تھا اس میں وقار اور تحمل سے بات کی اور کہاکہ اپنی بیٹی پر فخر ہے۔ غم اور حسارے کی اس گھڑی میں میرا دل نتاشا کی طرف چلاگیا۔ اس کے درد کو تصور کرنا مشکل ہے۔
عام وقت میں بھی جیل کی زندگی کافی تکلف دہ ہے۔ میں نے گزشتہ آٹھ ماہ تنہا ایک سیل میں گزارے ہیں۔ کئی مواقع پر 20 گھنٹے سے زیادہ وقت تک بند رہتا ہے، لیکن موجودہ صحت سے متعلق بحران نے جیل کی زندگی کو کئی گنا مشکل بھرا بنا دیا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران کووڈ کی دوسری لہر کی وجہ سے میں نے ایک دن یا رات بغیر کسی پریشانی کے اپنے سیل میں گزارے ہیں، جو اپنے گھروالوں اور پیاروں کو لے کر متفکر ہے ، جو اس سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتا ہے کہ زیادہ اس بارے میں نہ سوچے، لیکن ہر صبح اخبار موت اورمایوس کی خبر لاتاہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے سیل میں دم گھٹ رہاہے ، جیسے گھٹن اور کلاسٹرو فوبیا گھس رہاہے ۔
میں ہفتے میں پانچ منٹ کے ہفتہ وار فون کال یا دس منٹ کی ویڈیو کال کا بے تابی سے انتظار کرتا ہوں ،لیکن جب بات شروع کرتے ہیں ٹائمر کال کاٹ دیتا ہے۔ اس سے پہلے کبھی سیکنڈ کی قیمت کا احساس نہیں ہوا تھا جیسے گھر میں ایسی کالوں کے دوران کرتا ہوں۔ اپریل کے وسط میں خبر ملی کہ والدہ اور کئی رشتہ دار کووڈ پازیٹیو ہوگئے۔ میرے چچا کی حالت سنگین تھی۔ ایک صبح میں جاگا تو حالت ٹھیک نہیں تھی اور بہت درد تھا۔ جیل او پی ڈی میں دکھایا تو کچھ دوا ئیں دے کر رخصت کردیا۔ بھر عدالتی حکم کے بعد ٹیسٹ ہوا جو پازیٹیو تھا اور مجھے کوآرنٹین کردیاگیا۔ اس کامطلب یہ تھاکہ میں اب اپنے پیاروں سے فون کال بھی نہیں کرسکوں گا۔ اس دوران ہائی کورٹ کی مقررکردہ ہائی پاور کمیٹی کے بارے میں پڑھا ،جس میں پیرول یا عبوری ضمانت پر قیدیوں کی رہائی پر غور کیا گیا تھا۔گزشتہ سال کے تجربے کی بنا پر جانتا ہوں اور اس کی تصدیق بھی ہوگئی کہ غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ اور یو اے پی اے کے تحت گرفتار ہونے والے افراد عبوری ریلیف کے اہل نہیں ہوسکے ۔ واپس آنے کا واحد راستہ باقاعدہ ضمانت حاصل کرنا ہے جسے یو اے پی اے کی دفعات ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا دیتی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ہم جیسے طویل آزمائش کے بعد ہی آزاد ہونے کی توقع کرسکتے ہیں ۔ پچھلے 14 ماہ سے ہمارے معاملہ میں پہلی گرفتاری کے بعد سے ہمارے مقدمہ کی سماعت بھی شروع نہیں ہوئی، بے گناہی ثابت کرنے کا موقع بھی نہیں ملا ہے ۔ اس سازش کیس میں 16 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مقدمہ کی سماعت سے پہلے ہی نظر بند ہیں اور وبائی مرض میں ججوں، وکلاء کے بیمار ہونے کی وجہ سے کارروائی میں مزید تاخیر ہوگی۔ واضح طور پر یہ پروسیس ہی معمول کے دنوں میں بھی اذیت ناک سست روی اور آج کے حالات میں مزید ظالمانہ ہوگیا ہے ۔
اگر میں آزاد ہوتا ! کیا حکومت آج کے غیر معمولی حالات پرغور کرے گی اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرے گی۔ مجھے اس طرح کی امید بہت کم ہے ۔ گزشتہ سال کے مقابلہ غیر معمولی حالات میں سیاسی وصحت کے بحران پر توجہ مرکوز کرنے والے مظاہروں اور میڈیا کی توجہ ہٹانے کے لیے اس حکومت کو بہترین احاطہ فراہم کیا۔ سی اے اے کے خلاف آواز اٹھانے والے جیلوں میں ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر ہم آزاد ہوتے تو زندگی کیسی ہوتی۔ ان کی شناخت سے قطع نظر ہمدردی و یکجہتی کے ساتھ ضرورت مندوں کے پاس پہنچتے، لیکن ہم یہاں ہیں ان حالات میں جو بہت خراب ہوچکے ہیں ۔ ماہرین نے گزشتہ چودہ ماہ سے لوگوں کی ذہنی صحت کو خراب کرنے والے کو وڈ کی نشاندہی کی ہے۔ میری خواہش ہے کہ لوگ سیاسی قیدیوں اور ہمارے اہل خانہ کے لیے غور وفکر کریں۔ مہاویر اپنی بیٹی نتاشا کو آزاد نہ دیکھ سکے اور جو آخری لمحات میں اپنے باپ کے ساتھ نہ رہ سکی اور ان کی آخری رسومات کے تین ہفتہ بعد اسے پھر جیل جانا پڑے۔
(بشکریہ: دی پرنٹ)