بنگلور :(ایجنسی)
کرناٹک ہائی کورٹ میں حجاب کیس کی سماعت 9ویں دن بھی جاری رہی۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رتوراج اوستھی نے واضح طور پر کہا کہ اس وقت تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی صرف طالبات پر لاگو ہے نہ کہ وہاں کی خواتین اساتذہ پر۔ تعلیمی اداروں میں خواتین اساتذہ حجاب پہن سکتی ہیں۔ حجاب پر تنازع بڑھنے کے بعد ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ جب تک عدالت اس سلسلے میں مکمل حکم جاری نہیں کرتی، کوئی بھی حجاب سمیت کسی بھی قسم کی مذہبی چیز پہن کر تعلیمی اداروں میں نہیں آسکتے۔ اس کے بعد اس طرح کی ویڈیوز اور تصاویر منظر عام پر آئیں، جب کالج کے منتظمین نے مسلم خواتین اساتذہ سے حجاب اتارنے کو کہا۔ اس معاملے پر کرناٹک کے انگلش لیکچرر نے کالج میں حجاب اتارنے سے انکار کردیا اور اس کے بعد ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔
ان تمام واقعات کا آج ہائی کورٹ میں ذکر ہوا، جس پر چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ان کے حکم کا اطلاق اساتذہ پر نہیں ہوتا۔ وہ حجاب پہن کر آسکتے ہیں۔ چیف جسٹس اوستھی نے کہا کہ حکم واضح ہے کہ یہ صرف ان اسکولوں اور کالجوں کے لیے ہے جہاں یونیفارم مقرر ہے۔ اگر یونیفارم طے ہے تو انہیں اس پر عمل کرنا ہوگا، چاہے وہ ڈگری کالج ہو یا پی یو کالج۔آج نویں دن سماعت شروع ہونے پر پری یونیورسٹی کالج کی جانب سے سینئر ایڈووکیٹ ایس ناگانند نےبحث شروع کی۔ ناگا نند نے کرناٹک ہائی کورٹ کو بتایا کہ کیمپس فرنٹ آف انڈیا ( سی ایف آئی ) ایک بنیاد پرست تنظیم ہے، جو حجاب کے تنازع کے پیچھے ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی ایف آئی کسی اسکول یا کالج سے منسلک تنظیم نہیں ہے اور اس نے صرف ہنگامہ برپا کیا ہے۔
عدالت نے حکومت سے کہا کہ وہ سی ایف آئی کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرے۔ تمام دائیں بازو کی تنظیموں نے کیمپس فرنٹ آف انڈیا پر بھی اس معاملے کو اٹھانے کا الزام لگاچکی ہیں ۔
ناگانند نے کہا، سی ایف آئی کے نمائندے آئے اور کالج کے عہدیداروں سے ملے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت دی جائے۔ اس کے بعد ہنگامہ شروع ہو گیا اور طالبات نے احتجاج شروع کر دیا۔
پی یو کالج کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل ایس ایس ناگانند نے درخواست گزاروں کے آدھار کارڈ کا حوالہ دیا اور کہا کہ حجاب کے بغیر تصاویر ہیں۔
ایڈبوکیٹ ناگانند نے بتایا کہ 2004 میں یونیفارم کو لازمی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کوئی مسئلہ نہیں تھا اور طلبہ کلاس میں آرہے تھے۔ 21 دسمبر 2021 کو کچھ والدین نے کالج کے حکام سے ملاقات کی اور اصرار کیا کہ لڑکیوں کو حجاب پہننے کی اجازت ہونی چاہیے۔ پرنسپل نے درخواست کی کہ وہ یونیفارم پہنیں۔
ایڈووکیٹ ناگانند نے کہا، کرناٹک حکومت نے کوئی یونیفارم تجویز نہیں کی ہے۔ حکومت نے یونیفارم کے معاملے پر فیصلہ کرنے کا اختیار اداروں پر چھوڑ دیا ہے اور ہمارا کالج 2004 سے بغیر کسی اعتراض کے یہ فیصلہ کر رہا ہے۔دریں اثناء ایڈووکیٹ طاہر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ کالج میں حجاب کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکم بہت واضح ہے۔ اس کا اطلاق اساتذہ پر نہیں ہوتا۔ تب طاہر نے کہا کہ آپ کے اس حکم کی وجہ سے طلبہ کو کلاس سے نکالا جا رہا ہے۔ کچھ توواضح کریں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھنڈارکر کالج، اُڈپی نے سنگل بنچ کے سامنے بتایا تھا کہ ان کے لیے یونیفارم کا تعین کیا گیا ہے۔ پھر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یونیفارم طے ہو گیا ہے تو یونیفارم پی یو کالج یا ڈگری کالج میں لاگو ہو گا۔ ایڈووکیٹ طاہر نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں راتوں رات یونیفارم نافذ کرنے کی قراردادیں منظور کر لی گئی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کسی نے قانون توڑا ہے تو عدالت کے نوٹس میں آئیں گے۔ معاملے کی سماعت کل بھی جاری رہے گی۔