نئی دہلی :(ایجنسی)
پیر کے روز سپریم کورٹ نے شہید انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کے قتل کے ملزمین سے متعلق ایک تاریخی تبصرہ کرتے ہوئے بجرنگ دل سے یوگیش راج اور دیگر کی ضمانتیں رد کر دیں۔ سپریم کورٹ کی ایک بنچ کے جج سنجے کشن کول اور ایم ایم سندریش نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے اور ایک سینئر پولیس افسر کی لنچنگ کی گئی ہے۔ ملزمین نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور ہم لنچنگ کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔ ضمانت رد کی جاتی ہے۔‘‘یوگیش راج اور دیگر ملزم دائیں بازو کی تنظیم بجرنگ دل سےجڑے ہوئےہیں۔
ملزم یوگیش راج کو الٰہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی تھی۔ ہائی کورٹ کے اس حکم کو انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کی بیوی رجنی سنگھ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایم ایم سندریش نے کہا کہ پہلی نظر میں یہ معاملہ ایسا ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔گئو ہتیا کے بہانے ایک انسپکٹر کا قتل ایک سنگین معاملہ ہے۔ ملزم کے خلاف 124 اے کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔
انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ گائے کے ذبیحہ سے متعلق شکایات کی جانچ کر رہے تھے۔ وہ دادری میں بھیڑ کے ذریعہ مارے گئے اخلاق کے قتل کی جانچ کررہے تھے۔ اخلاق کےگھر سےبرآمد میٹ کو انہوں نے ہی لیب میں جانچ کےلیے بھیجاتھا ۔ لیب کی جانچ میں پایا گیاکہ اخلاق کے گھر میں برآمد ہوا گوشت گائے کا گوشت نہیں تھا ۔ اس کےبعدسبودھ کمار سنگھ کاتبادلہ سیانا( بلند شہر ) کردیاگیا۔ 3 دسمبر 2018 کو اچانک ایک گاؤں میں مبینہ طور پر گائے کی نسل کے ٹکڑے ایک کھیت میں پڑے ملتے ہیں۔ بھیڑ سیانا پولیس اسٹیشن کے سامنے جمع ہوجاتی ہے۔ اشتعال انگیز تقریریں شروع ہو جاتی ہیں۔ ہجوم تشدد شروع کر دیتا ہے اور اسی دوران انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کا قتل کردیا جاتا ہے ۔ اس معاملے میں یوگیش راج اور دیگر پر الزام تھا کہ انہوں نے ہجوم کی قیادت کی اور انہیں پولیس پر غیر قانونی ہتھیاروں، تیز دھار چیزوں اور لاٹھیوں سے حملہ کرنے کے لیے اکسایا۔
عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ ہر وہ شخص جو اس طرح کے غیر قانونی ہجوم کا حصہ ہے اس کے خلاف سیکشن 34 (یکساں ارادے سے کئی افراد کے ذریعہ کئے گئے کام) یا دفعہ 149 (کسی بھی رکن کی طرف سے کیا گیا غیر قانونی کام) کے معقول الزامات کا ذمہ دار ہوگا اور اس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے۔
ملزم یوگیش راج کو ستمبر 2019 میں ضمانت مل گئی تھی۔ اس کے بعد تمام ہندو تنظیمیں جگہ جگہ ان کا احترام کرنے لگیں۔ اسے ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس نے مئی 2021 میں ضلع پنچایت ممبر کے عہدے کے لیے بلند شہر کے وارڈ نمبر 5 سے پنچایت کا انتخاب بھی جیتا تھا۔ یوگیش راج کے وکلاء نے سپریم کورٹ کو بتایا، چارج شیٹ میں سنگھ کو گولی مارنے والے ملزم کے طور پر ان کا نام نہیں بتایا گیا ہے۔ اس پر عدالت نے کہا۔ ’آپ کو واپس جیل جانا پڑے گا۔ ہم ان چیزوں کو آگے بڑھنے نہیں دے سکتے۔
سماعت کے دوران بنچ نے یوگیش راج کو دی گئی ضمانت کو چیلنج نہ کرنے پر اترپردیش حکومت کی بھی کھنچائی کی۔ اسی وجہ سے انسپکٹر کی بیوی رجنی سنگھ کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کے وکیل سے کہا، ’اگر آپ کہتے ہیں کہ ان کی ضمانت منسوخ کرنی ہے تو آپ نے ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اپیل کیوں نہیں کی؟ آپ خود کوئی قدم نہیں اٹھاتے لیکن اب آپ سامنے آکر کہتے ہیں کہ آپ درخواست کی حمایت کر رہے ہیں۔ عدالت نے ریاستی حکومت کے وکیل کے اس اعتراض پر برہمی کا اظہار کیا جب اس نے کہا کہ پولیس اہلکار کی بیوہ ہائی کورٹ کے ضمانت کے حکم کے خلاف اپیل دائر کرنے میں جلدی میں تھی، اس معاملے کو ٹریک کر رہی ہے، لیکن ایک ریاست ایسا نہیں کر رہی ہے ، اور یہ صرف انتظار کرتی رہتی ہے۔‘
واقعے کی ایف آئی آر میں 27 لوگوں کے نام درج ہیں جن میں یوگیش راج اور مقامی بی جے پی لیڈر شیکھر اگروال کے علاوہ 53 نامعلوم افراد شامل ہیں۔ ان پر قتل، غداری، اقدام قتل، ہنگامہ آرائی اور ڈکیتی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ یوگیش راج 2 جنوری 2019 کو گرفتار ہونے سے پہلے تقریباً ایک ماہ تک مفرور تھا۔
واضح رہے کہ شہید انسپکٹر کی بیوہ رجنی بتاتی ہیں کہ انھیں مضبوط بننا پڑا۔ انھیں بہکانے اور ورغلانے کی کوششیں ہوئیں، یہاں تک کہ لالچ بھی دیا گیا۔ کچھ اپنے تو یہ بھی کہتے تھے کہ ہم کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ اب شاید انھیں پتہ چلا ہوگا کہ ہم کیا کر رہے تھے۔ فیصلہ آنے کے فوراً بعد مجھے ایسا احساس ہوا کہ جیسے سبودھ میرے سامنے کھڑے ہو کر مسکرا رہے ہوں۔ مجھے ان لوگوں پر بھی سخت ناراضگی ہے جنھوں نے یوگیش راج اور اس کے جیسے غنڈوں کو ہیرو مان رکھا ہے۔ اتر پردیش پولیس کو بھی ایک مثال قائم کرنا چاہیے تھی۔ نظام میں بہت سی خامیاں ہیں، انھیں ضمانت پر باہر ہی نہیں آنا چاہیے تھا لیکن میں محکمہ کی پریشانیوں کو سمجھتی ہوں۔ سبودھ ہمیشہ زندہ باد رہیں گے۔ انھیں میرا سلام۔