اندور: مدھیہ پردیش کے ضلع اندور کے ایک سرکاری لاء کالج کے 6 پروفیسروں کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) نے ان پروفیسروں پر مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے سمیت کئی الزامات لگائے تھے۔ اے بی وی پی نے اس سلسلے میں کالج کے پرنسپل انعام الرحمان کو ایک میمورنڈم سونپا تھا۔ تمام پروفیسرز کو ان کی ذمہ داریوں سے عارضی طور پر فارغ کر دیا گیا ہے۔ اے بی وی پی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی طلبہ تنظیم ہے۔
میمورنڈم میں اے بی وی پی کے طلباء نے پرنسپل سے سوال کیا تھا کہ کالج میں ایک خاص مذہب سے زیادہ اساتذہ کیوں ہیں۔انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ان میں سے ایک پروفیسر مذہبی جنونیت کو فروغ دے رہے ہیں۔
طلباء نے الزام لگایا تھا کہ پروفیسر سرکاری ملازم ہونے کے باوجود نئی تعلیمی پالیسی کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔
میمورنڈم میں کہا گیا کہ ایک اور پروفیسر مغلوں کے دور حکومت کی تعریف کرتے ہوئے ہندو حکمرانوں کی تاریخ سے کھیل رہے ہیں۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ کچھ اور پروفیسر ‘لو جہاد’ کو فروغ دینے میں ملوث ہیں اور طلباء کو نماز کے لیے مسجد لے جاتے ہیں۔
میمورنڈم میں جن 4 پروفیسروں کے نام لکھے گئے ہیں ان میں عمیق کھوکھر، ڈاکٹر مرزا معیز بیگ، ڈاکٹر فیروز احمد میر، پروفیسر سہیل احمد وانی شامل ہیں۔ اس کے بعد اے بی وی پی کی طرف سے دو دیگر پروفیسرز ملند کمار گوتم اور ڈاکٹر پورنیما بیس کے نام بھی دیے گئے۔
خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق کالج میں اے بی وی پی کے صدر دیپیندر ٹھاکر نے کہا کہ ہم نے کالج انتظامیہ سے شکایت کی تھی کہ پروفیسر عظیم شخصیات اور فوج کے خلاف غلط ریمارکس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں لو جہاد کا معاملہ بھی ہے اور ایک پروفیسر نے ایک طالبہ کو ایک کیفے میں بلایا تھا اور اس کے ساتھ تصویر کھینچی تھی اور اسے ایک پب میں چلنے کو کہا تھا۔
ٹھاکر نے بتایا کہ طالب علم نے اس بارے میں شکایت بھی کی تھی لیکن اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بعد میں اس نے ہمیں بتایا اور ہم نے پرنسپل کو اپنے مطالبات کے حوالے سے ایک میمورنڈم پیش کیا ہے۔