جمعت علماء اسلام کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حمداللہ کا کہنا ہے کہ جب مولانا فضل الرحمان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر منتخب ہو سکتے ہیں تو وہ ملک کے صدر کیوں منتخب نہیں ہو سکتے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور جی ایچ کیو کے لیے مولانا کو قبول کرنا آسان نہیں ہوگا۔
کچھ مبصرین کی یہ بھی رائے ہے کہ سیاسی جماعتیں صرف وزارت، مشاورت اور سرکاری عہدوں کے لیے سیاسی اتحاد بناتی ہیں۔
جمیعت علماء اسلام کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی سیاسی حیثیت سے بڑھ کر اقتدار میں حصہ مانگتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اقتدار کے مزے لوٹے جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں بھی وہ شریک اقتدار رہی۔ اب جے یو آئی کی نظر ملکی صدر کے عہدے پر ہے، جس کا ملنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ جمعیت علماء اسلام کے رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ کا کہنا ہے کہ مولانا اس عہدے کے لیے موضوع ترین شخصیت ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میرا یہ دعویٰ ہے کہ چاہے انتخابات پیپلز پارٹی جیتے یا لیگ، کرسی صدارت مولانا فضل الرحمان کو ہی ملے گی۔ ہم نے ابھی ان دونوں جماعتوں سے کوئی باقاعدہ بات چیت نہیں کی ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ مولانا اگر پی ڈی ایم کو چلا سکتے ہیں تو کرسی صدارت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
’قبولیت مشکل ہے‘
جے یو آئی افغان طالبان کی حمایت کرتی ہے جبکہ نظریاتی طور پہ بھی وہ انتہائی قدامت پرست پارٹی ہے، جس کی مقبولیت قومی سطح پر بہت مشکل ہے۔ تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت معتدل مزاج ہے جبکہ جمعیت علماء اسلام ایک قدامت پرست مذہبی جماعت تصور کی جاتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”عوامی سطح پر وہ زیادہ ووٹ نہیں لے پائے گی کیونکہ کے پی میں عمران خان بہت مقبول ہیں جب کہ ن لیگ اور پی پی پی بھی یہ عہدہ دینے پہ تیار نہیں ہو
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں وزارت عظمٰی سے لے کر کرسی صدارت تک تمام معاملات میں ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل ہوتا ہے اور انہیں ناراض کیے بغیر کوئی ان معاملات میں یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔
مولانا فضل الرحمان نے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے انتہائی سخت رویہ اپنایا اور ایک مرحلے پر کور کمانڈر آفس کے سامنے مظاہروں کی بھی دھمکی دی۔ اس اسٹیبلشمنٹ مخالف رویے کی وجہ سے کرسی صدارت کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا مشکل ہو سکتا ہے۔ تاہم حافظ حمد اللہ کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کا بھی ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے انتہائی سخت رویہ تھا، لیکن وہ اقتدار میں ائے تو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی
جمعیت علماء اسلام کی مرکزی شوریٰ کے رکن محمد جلال الدین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اختیار کے بغیر عوامی خدمت کرنا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ایسی بات نہیں ہے کہ جے یو آئی ایف صرف اقتدار چاہتی ہے بلکہ اس کی معیشت، زراعت، بے روزگاری اور دوسرے عوامی مسائل کے حوالے سے بھرپور تیاری ہے اور اگر اسے اقتدار ملا تو وہ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے گی۔‘‘
مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ صدارت کے حوالے سے ابھی کوئی بھی بات کہنا قبل از وقت ہے۔ ن لیگ کے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”سیاست میں کوئی بھی شخص کسی طرح کی بھی خواہش کر سکتا ہے لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اگلے انتخابات میں حکمران پارٹی کون بنتی ہے۔ میرے خیال میں وہ پارٹی لیگ ہوگی اور وہ پھر سیاسی اتحادیوں کی مشاورت سے اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرے گی۔‘‘
پی پی پی کا بھی یہی کہنا ہے کہ صدارت کی باتیں قبل از وقت ہیں۔ پارٹی کی ایک رہنما اور سابق سینیٹر سحر کامران کا کہنا ہے کہ صدارت کی خواہش کوئی بھی کر سکتا ہے: ”لیکن ہم یہ دیکھیں گے کہ عوام نے کس کو ووٹ دیے ہیں۔ انتخابات کے بعد ہم اپنے نظریے کی بنیاد پر مرکزی کمیٹی کی رہنمائی میں اس حوالے سے فیصلے کریں گے۔‘‘۔