رامپور جو کبھی پارلیمنٹ میں مولانا ابوالکلام آزاد اور اعظم خان کی نمائندگی سے جانا جاتا تھااس الیکشن میں خاموش دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں کی سیاسی فضا میں ایک عجیب سی خاموشی اور سناٹا ہے۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ یہ رمضان کے روزے کی خاموشی ہے تو کچھ کہہ رہے ہیں کہ یہ اعظم خان کے الیکشن سے دور ہونے کی مایوسی ہے۔ رام پور میں انتخابی مہم اتنی خاموشی سے چل رہی ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ یہاں 19 اپریل کو ووٹنگ ہونے والی ہے۔ لیکن ان خاموشیوں کے درمیان بھی انتخابات کی مہم آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی ہے
۔ جہاں ایس پی نے محب اللہ ندوی کو رام پور سے اپنا امیدوار بنایا ہے، وہیں بی جے پی نے ایک بار پھر گھنشیام سنگھ لودھی پر داؤلگا دیا ہے۔ بی ایس پی نے یہاں سے ذیشان خان کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ ہر بار اعظم خان کی موجودگی رامپور میں الیکشن کو خاص بنانے کے لیے کافی تھی۔ اعظم خان رام پور میں بولتے تھے، لیکن اس کی گونج پورے ملک میں سنائی دیتی رامپور میں نیوز چینلوں کی گاڑیاں نظر آتیں کیونکہ اعظم خان کی موجودگی اسے وی آئی پی سیٹ بنادیتی ۔ کیونکہ ان کے طنز بھرے جملے اور کٹیلے لطیفے ان کے سیاسی حریفوں کے جگر کے ہار ہوجاتے مگر وہ آہ بھی نہ کرپاتے۔
اس بار رام پور کے لوگ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ ایسا کیا ہوا کہ اعظم خان نے یہاں سے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ کیا یہ ان کی سیاسی چال ہے یا واقعی اکھلیش یادو نے انہیں رام پور میں شکست دی ہے؟ یعنی اعظم خان نے مراد آباد میں اکھلیش کو جھکایا تو اکھلیش نے رام پور میں ہی اعظم خان کے گھر میں بدلہ لے لیا۔ کیا واقعی ایسا ہے جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ اکھلیش اور اعظم خان کی لڑائی نے ایس پی کا کچومر نکال دیا ۔اس کا امیدوار اجنبیوں کی طرح گھوم رہا ہے اب کیا انڈر کرنٹ ہے یا کچھ اور فی الحال تو بی جے پی کی بلے بلے ہے۔رام پور سے سماج وادی پارٹی کے امیدوار محب اللہ ندوی بالکل بھی اعظم خان کی پسند نہیں تھے۔ وہ اکھلیش یادو کی ایک اور مسلم لابی کا انتخاب ہیں، جو مراد آباد ڈویژن کے امیدواروں کا فیصلہ کر رہی تھی۔
اسی لابی نے راتوں رات محب اللہ ندوی کو رامپور کا ایس پی امیدوار بنا دیا۔ اس لئے ان کو پیراشوٹ امیدوار کہا گیا ہے کہا جاتا ہے کہ اسی لابی نے مراد آباد میں ایس ٹی حسن کو کنارے کر دیا اور اسی لابی نے انہیں اعظم خان کی سیٹ کے لیے انتخاب لڑنے نہیں دیا۔ محب اللہ ندوی دہلی کی پارلیمنٹ اسٹریٹ پر واقع جامع مسجد کے امام ہیں۔ ان کی اسی حوالے سے سیاسی لوگوں سے یاد اللہ ہے اب قسمت کی ستم ظریفی کہ ان کو رمضان میں گھر گھر ووٹ مانگنا ہے۔
عجب ہے کہ رام پور کے لوگ اس امیدوار اور اس کے ساتھ آنے والے لوگوں کو پہچان نہیں پا رہے ہیں۔ کیونکہ ان میں سے اکثر باہر کے چہرے ہیں اور اعظم خان نے سیتا پور جیل میں پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
محب اللہ ندوی کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسی مسجد کے امام ہیں جو ملکی سیاست کے مرکز میں واقع ہے۔ سیاستدانوں کو مشورہ دینا ان کا یو ایس پی رہا ہے اور ملک کے سابق صدر سے لے کر بڑے بڑے مسلم لیڈروں اور سیاستدانوں تک سبھی ان کے پیچھے نماز پڑھتے رہے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی سیاستدان انہیں کم سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔ دوسری طرف بی جے پی رام پور میں ہندو اور مسلم سیاست سے دور ہے۔ اس کا امیدوار کبھی اعظم خان کے بہت قریب تھا، اور پچھلے ضمنی الیکشن میں ایم پی بن گئے۔ نام ہے گھنشیام سنگھ لودھی۔ وہ اپنی انتخابی تقریروں میں مودی کی گارنٹیوں کی بات کرتے ہیں۔الیکشن الف کی طرح سیدھا چل رہا ہے-نہ گرمی نہ بحثیں نہ ہوٹلوں میں چرچا
رام پور میں سماج وادی پارٹی کی انتخابی مہم شروع نہیں ہو ئی ہے اور اس کی وجہ اعظم خان ہیں۔ انہوں نے ابھی تک ایس پی امیدوار محب اللہ ندوی کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اعظم خان کے حمایتی لیڈر اور کارکن فی الحال ایس پی امیدوار کی مہم سے دور ہیں۔ ایسے میں مانا جا رہا ہے کہ اعظم خان کی حمایت کے بغیر یہ انتخاب سماج وادی پارٹی کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا۔اور نہ ہی کوئی کشمکش اور انتخابی لڑائی کا فیور آئے گا ۔باقی رہے نام اللہ کا۔