قاسم سید
بین الاقوامی شہرت یافتہ عظیم شاعر منور رانا جس کے دم سے مشاعروں کے ادبی کوچے آباد ہیں، جس کے سینہ میں ماں دھڑکتی ہے،جس نے حاکمان وقت سے آنکھیں ملانے والی شاعری کے سفر کو آگے بڑھایا ، جب اسٹیج پر آئے تھوڑی دیر کے لیے زمین وآسمان ٹھہر جائیں اور جب سادگی بھرے لہجہ میں بھاری بھرکم مضامین کو آسان لفظوں کے موتیوں میں پروئے تو سیدھا دلوں میں اتر جائے ، جس نے این آر سی؍ سی اے اے مخالف تحریک میں سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ بدنامیاں مول لیں، اس کی بیٹیوں نے لکھنؤ کا گھنٹہ گھر آباد رکھا اور ملک کے انصاف پسند طبقہ کی دعائیں لیں، جب بولا تو پرائم ٹائم کی ڈبیٹ کا موضوع بن گیا، جسے عوام نے سروں پر بٹھا یا، اس کے وقار کو بڑھایا، جب اس کے منھ سے برہنہ گفتاری ،دشنام طرازی اور عام عورتوں کی طرح کوسنے دیتے دیکھا تو بخدا بالکل اچھا نہیں لگا۔
ایک ٹی وی ڈبیٹ میں خاندانی تنازع کے حوالہ سے انہیں اپنے خاندان کی بخیہ ادھیڑتے، غلیظ الفاظ اور مہذب گالیاں سن کر عقیدت واحترام کے تمام محل دھڑام ہو گئے۔ یقین نہیں آیا کہ یہ وہی منو ررانا ہے جس کو سننے کے لیے مداح پوری رات سیاہ کرلیتے ہیں، جو کالے لباس میں بڑا اجلی شاعری کرتاہے، جس کی صدائے احتجاج کی گونج بہت دور تک سنائی دیتی ہے۔ وہ اپنی فیملی کا پوسٹ مارٹم سرعام کررہاہے، اپنے بھائی کے لیے انتہائی چھچھوری زبان استعمال کررہا ہے ۔ جارحانہ لب ولہجہ میں چنگاریاں اگل رہاہے ۔ ماضی کی داستانوں ، رسوائیں کی گندگی کو دونوں ہاتھوں سے اچھال رہاہے تو بڑی شرم آتی ہے ۔ اگر ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا ہے ، وہ ہوش وحواس میں نہیں ہیں، وہ کسی خطرناک بیماری کے نتیجہ میں اپنی زبان پر قابو اور الفاظ کے انتخاب کا شعور کھو بیٹھے ہیں، عزت وذلت کااحساس چلا گیا ہے تو الگ بات ہے ، پھر تو وہ قابل معافی ہی نہیں قابل رحم ہیں۔ ان کی صحت کا ملہ کے لیے دعائیں کی جانی چاہئے اور اگر وہ پورے عالم ہوش میں ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ، جائیداد کی لڑائی کو جنگ میں سب کچھ جائز ہے سمجھ کر مغلظات بک رہے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ بڑے شاعر کے جسم میں اتنا چھوٹا آدمی سن رہا ہے ۔ کہتے ہیں دلائل نہ ہوں تو گالیاں اس کا بدل ہوتی ہیں۔ منور رانا تم نے اپنے مداحوں کو شرمسار کردیا۔