نئی دہلی (آر کےبیورو)
مسلمانوں کی کل ہند اکلوتی وفاقی تنظیم سمجھی جانے والی مجلس مشاورت میں جاری تنازعات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ ایک سالہ ’’ دوطرفہ جنگ بندی‘‘ کے بعد ایک بارپھر محاذ کھل گیا ہے اور دونوں طرف سے مراسلات کی گولہ باری ہورہی ہے ۔ مشاورت کے سابق صدر معروف اسکالر ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں اور ان کے موقف کے دیگر حامیوں کی طرف سے جنرل باڈی کی میٹنگ بلانے اور صدراتی انتخابات کا عمل شروع کرنے کامطالبہ کیا گیا ہے ،حالانکہ موجودہ صدرکی طرف سے جن کے انتخاب پر ڈاکٹر صاحب کو شروع سے ہی اعتراض رہاہے بتایا جا تا ہے کہ ان کے مکتوب سے کافی پہلے میٹنگ کے تعلق سے تمام ارکان کو خط لکھا جاچکا ہے ۔
گفتگو کی خاص باتیں:
مشاورت کے سابقہ دو صدارتی الیکشن میں جماعت اسلامی ہند کا رویہ وعدہ خلافی کا رہا
مجتبیٰ فاروق نے جماعت کی ضابطہ شکنی کی مگر ان پر تادیبی کارروائی نہیں ہوئی
سپریم گائیڈنس کونسل کا فیصلہ، مولانا عمری کی ذاتی رائے ہے
نوید حامد غیرقانونی، غیر دستوری طور پر عہدۂ صدارت پر قابض ہیں
ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں کا کہنا ہے کہ موجودہ صدر مشاورت نوید حامد غیر قانونی اور غیر دستوری طریقہ سے عہدہ پر قابض ہیں ،جبکہ ان کی مدت ختم ہوچکی ہے اس لئے انتخابی عمل کو پروسیس میں لانے کی ضرورت ہے جب ’ روز نامہ خبریں‘ نے سپریم گائیڈنس کونسل کے فیصلہ کاحوالہ دیا جس نے نوید حامد کی صدرات کی دوسری مدت کو عدالت کی اجازت کےبعد ریٹرننگ آفیسر کی طرف سے نتائج کااعلان کرنے کی تاریخ سے آغاز مانا گیا ہے ۔ ڈاکٹر خاں نے زور دے کر کہاکہ یہ سپریم گائیڈنس کونسل کی نہیں بلکہ مولانا جلال الدین عمری کی ذاتی ونجی رائے ہے اور اس کی حیثیت اپیل ومشورے کی۔ کونسل کی میٹنگ کب اور کہاں ہوئی ، رائے کیسے لی گئی اور پھر یہ اتفاق رائے سے نہیں ہوا ۔ میں نے خود اختلافی نوٹ لکھا تھا، میں بھی اس کاممبر ہوں۔ انہوں نے کہاکہ نوید حامد نے توبرملا کہا تھا کہ وہ اس کا فیصلہ نہیں مانیں گے تو کیا مولانا عمری غلط کہہ رہے ہیں ۔ ڈاکٹر خاں نے کہا بالکل وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں ۔ ڈاکٹر موصوف نے نوید حامد کو ضدی اور دروغ گو بتاتے ہوئے کہاکہ انہوں نے سپریم گائیڈنس کونسل کی ایک میٹنگ میں تمام ممبران کے سامنے مجھے اور میرے والد کو (جواب مرحوم ہوچکےہیں) آر ایس ایس کا ایجنٹ کہا۔ وہ شرافت سے بات ہی نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے انتخابات میں لابنگ اور دھاندلی کی۔ انہوں نے احمد پٹیل، سلطان احمد اور سید شہاب الدین کو استعمال کیا اور صدر بننے کےلیے ہرہتھکنڈہ اپنایا ۔
ڈاکٹر خاں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں کم وبیش آٹھ سال صدر رہا ۔ مشاورت کی ایک پائی اپنے اوپر خرچ نہیں کی۔ نوید حامد نے آنے کے بعد سات سال کے واؤچر کھنگالےکچھ میرے خلاف مل جائے مگر کچھ نہیںملا۔ تو کیا ذمہ داروں کو ضرورت کے مطابق خرچ کرنے کاحق نہیں ؟اس پر سابق صدر مشاورت نے کہا کہ بالکل ہے۔ مشاورت کے لیے کئے جانے والے کاموں میں وہ خرچ کرسکتا ہے کہیں آمد ورفت ہے، پروگرام وغیرہ کرنا ہے ۔
’روز نامہ خبریں‘ نے پوچھا کہ کہا جاتا ہے اصل تنازع کی جڑ مشاورت ٹرسٹ اور مشاورت سے متعلق دستاویزات ہیں۔ جب ان پر بات ہو ئی تواختلافات کا دروازہ کھل گیا ۔ انہوں نے کہاکہ ہرگز نہیں ایسا بالکل نہیں ان امور پر گفتگو ہوچکی ہے ۔یہ معلوم کرنے پر کہ آپ توصدارتی الیکشن رکوانے عدالت تک چلے گئے ۔ انہوں نے تردید کی کہ میں نہیں انیس درانی گئے تھے البتہ اخلاقی حمایت کی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں سابق صدر مشاورت نے جماعت اسلامی ہند پر دروغ گوئی اور وعدے سے انحراف کے سنگین الزام لگائے ۔ انہوں نے کہاکہ 2015 میں صدارتی الیکشن میں جماعت اسلامی نے آئی پی ایس منظور احمد کی امیدوار کے طور پر حمایت کی۔ مگر عین وقت پر ان کے ووٹ نوید حامد کو پڑ گئےاور منظور احمد 6 ووٹ سے ہار گئے ۔ جماعت کے 18 ووٹ انہیں مل جاتے تو وہ نہ ہارتے یہ سارا معاملہ مجتبیٰ فاروق کی وجہ سے ہوا۔ جماعت نے وہ ہدایت جاری نہیں کی جو ایسے موقع پر دی جاتی ہے ۔ مجتبیٰ فاروق نے نوید حامد کے لیے ووٹ مانگے جو ڈسپلن شکنی کامعاملہ تھا۔ ان کے خلاف ایکشن ہونا چاہئے تھا نہیں ہوا۔ دوسری میقات میں بھی یہی ہوا ۔ ہماری جماعت کے ساتھ تین میٹنگیں ہوئیں ۔ ادیب صاحب کی حمایت کا وعدہ کیا پھر منحرف ہوگئی یہ تمام باتیں اور بہت کچھ ریکارڈ میں ہے ۔ وقت آنے پر سب پتہ چل جائے گا۔ انہوں نے صاف کہاکہ جماعت اسلامی نے وعدہ خلافی ا ور انحراف کامظاہرہ کیا۔
آخر اس صورتحال کااختتام کس طرح ہوگا۔ الگ تنظیم بنائیں گے ۔ اسی کو تقسیم کیاجائےگا ۔ کوئی نیا متبادل ذہن میں ہے اس بارے میں انہوں نے کہاکہ وہ ذاتی طور سے تقسیم کے خلاف ہیں ۔ ایک بار یہ تکلیف دہ کام ہوچکاہے ۔ متبادل کی بات بہت دنوں سے چل رہی ہے اور لوگ اس پر غور کررہے ہیں ،میں نے ایسےاقدام کی کبھی تائید نہیں کی۔ تنظیم کے لیے عرصہ درکار ہوتا ہے ۔ 14 میں ہی اتحاد ہو اتھا ۔ یہ جان لیجئے کہ اس میں سے کسی کام کی ابتدا میری طرف سے نہیں ہوگی۔ دیکھا جائے گا کیا ہوتا ہے ۔میں تو اس بقا چاہتا ہوں اور خواہش نہیں۔