مولانا عبد الحمید نعمانی
چراغ پاسوان نے جس طرح بہار اسمبلی انتخابات کے موقع پر مودی کا ہنومان بن کر کام کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ اور نہیں نکل سکتا تھا، بھارت میں ہنومان، معبود ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ خادم اور سیوک کے رول میں رہا ہے، لنکا میں اس کی دم میں آگ بھی لگائی گئی تھی، یوگی نے ہنومان کو یوں ہی دلت قرار نہیں دیا تھا، ویسے رامائن کے حساب سے تو ہنومان آدی واسی ہونا چاہیے تھا، برہمن وادیوں نے جس طرح دم لگا کر ہنومان اور اس کے کردار کو پیش کیا ہے اس پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔
خود کو ہنومان قرار دیتے ہوئے نمبر ایک پر رہنے کی توقع نہیں رکھنا چاہیے، جگجیون رام اور رام ولاس پاسوان نے نظریاتی کے بجائے ہمیشہ ذاتی مفاد کی سیاست کی، جگجیون رام کو ڈاکٹر امبیڈکر کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا تھا، ہمارے زیادہ تر مسلم لیڈروں کو زیادہ پتا نہیں ہے، وہ دلت مسلم کے نام پر سیاست کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں، کچھ لوگ میشرام کو ڈھو کر سمجھتے ہیں کہ ہم بڑا کارنامہ انجام دے رہے ہیں، وہ ناسمجھی میں نہرو گاندھی پر تیر چلا کر سمجھتے ہیں کہ نشانہ صحیح لگ رہا ہے، حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ کچھ جادوگروں نے جادوئی عمل سے بہت سے لوگوں کو جانور بنا کر سیاست کے ہرے بھرے میدان میں چرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے تاکہ اناج، سبزی، دال، گوشت کا بچاؤ ہو سکے۔
کانگریس کو ایک شاعر نما سیاسی یا سیاسی نما شاعر کی ضرورت تھی، سب کانگریسی مسلم لیڈر غائب تھے، جب جادوئی عمل کا اثر ختم ہوا تو منظر نامہ بدلا بدلا نظر آیا، دھند میں آنکھیں مل کر کچھ دیکھا جاتا کہ پردہ گر کر اٹھ چکا تھا، چراغ پاسوان کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ہنومان کی جگہ جنگل میں ہے نہ کہ باوسائل آبادی میں، آبادی میں تو کنارے یا گاؤں سے باہر محافظ دیوتا کو ہی جگہ مل سکتی ہے، مطالبہ اور خواہش بھی تو اسی کی گئی تھی۔
یوپی وغیرہ کے انتخابات میں چند مہینے رہ گئے ہیں، ادھر کام شروع ہو گیا ہے، لیکن ادھر کوئی خاص نہیں ہو رہا ہے، جب ووٹنگ میں کچھ دن رہ جائیں گے تو کمین گاہوں میں چھپے سارے مجاہدین میدان میں نکل آئیں گے، ملت کے نام پر سیاست کرنے والے بھی،انتخابات اور ان کے نتائج کا اعلان ہونے کے بعد پھر ضابطہ پسند فوج کی طرح، بیرکوں میں واپس چلے جائیں گے، سیاست بھی کل وقتی کام ہے نہ ذائقہ بدلنے کے لیے جز وقتی کام، ہمارے یہاں ڈاکٹری کرتے ، مریض کو دوا، انجکشن دیتے دیتے اچانک سیاسی بن جاتے ہیں، ہوٹل، دکان، چلاتے چلاتے، ملک چلانے نکل پڑتے ہیں، جب ’چراغ‘ کا چراغ جانوروں کے دیوتا، پشوپتی کی ہوا کی زد میں آ سکتا ہے، جو کیلاش کی بلندی سے کبھی کبھار اترتا ہے تو تباہی کے اس دیوتا پر کس قدر نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو ہر وقت ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر کرنے پر اتارو ہو، صرف کبھی کبھار ہی پربت سے نہ اترتا ہو، یہاں تو ہوا کسی کی بھی نہیں ہے، جب کہ چراغ، سب کے بجھنے کا دھڑکا لگا ہوا ہے۔