گواہاٹی:(ایجنسی)
گوہاٹی ہائی کورٹ نے پیر کو آسام حکومت کو ہدایت دی کہ وہ مئی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تمام ’مبینہ‘ انکاؤنٹر ہلاکتوں کے کیس کی تفصیلات پیش کرے۔ عدالت ایک مفاد عامہ کی عرضی (PIL) کی سماعت کر رہی تھی جس میں آسام پولیس کے مبینہ فرضی مقابلوں کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
مئی 2021 سے، بی جے پی کے ہیمنت بسوا سرما کے آسام کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد، کم از کم 31 افراد پولیس کی حراست میں یا پولیس کے ساتھ مبینہ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاک ہونے والوں کا تعلق آسام میں نسلی یا مذہبی اقلیتوں سے تھا۔ جن 30 افراد کی شناخت ہوئی ان میں سے 14 مسلمان تھے۔ 10 کا تعلق بوڈو، دیماسا، یا کوکی – قبائلی برادریوں سے تھا۔
Livelaw کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس سومترا سائکیا کی بنچ نے سینئر ایڈووکیٹ اندرا جے سنگھ کی سماعت کی جو عرضی گزار، دہلی میں مقیم وکیل عارف جوادر کی طرف سے پیش ہوئیں، آسام کے ایڈووکیٹ جنرل ڈی سیکیا کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیاہے ۔
درخواست میں، عارف جوادر نے پولیس اہلکاروں کے ذریعہ مبینہ ملزمان کے فرضی انکاؤنٹر کے قتل پر تعزیرات ہند کی دفعہ 302 کے تحت ایک جرم کے لئے ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔
’ ‘اسکرول‘ کی حال ہی میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق، حراست میں ہونے والی اموات کا پولیس ورژن تقریباً ہر معاملے میں ایک واقف اسکرپٹ کی پیروی کرتا ہے: ’مردہ شخص کو اس وقت گولی مار دی گئی جب اس نے سروس ہتھیار چھیننے کی کوشش کی یا حراست سے فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔‘
ان 31 میں سے ایک 12 سالہ شیخ فرید ہے جو اس سال 23 ستمبر کو سپاہ جھر کے علاقے میں جبری بے دخلی مہم کے دوران پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا تھا۔ اسی روز پولیس کی کھلی فائرنگ میں 32 سالہ معین الحق بھی مارا گیا تھا۔
فوٹوگرافر بیجوئے بنیا کی ایک 72 سیکنڈ کی ویڈیو جس نے پولیس کی طرف سے گولی مار دیے گئے مسلمانوں میں سے ایک کے جسم پر چھلانگ لگا دی، وائرل ہوئی، جس سے ملک بھر میں غم و غصہ پھیل گیا۔
آسام پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 10 مئی سے 10 دسمبر کے درمیان پولیس فائرنگ میں کم از کم 55 افراد زخمی ہوئے اور ان میں سے کم از کم 30 مسلمان ہیں۔