نئی دہلی :
کووڈ کی وجہ سے پیدا ہوئے بحران کے تناظر میں بھارت غیر ملکی میڈیاپر مسلسل چھایا ہوا ہے۔ برطانیہ کا ’انڈیپنڈنٹ ‘ہو یا ’گارجین‘ ۔ چین کا ’گلوبل ٹائمس‘ ہو یا فرانس کا ’لی موندے‘ یہاں تک پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا چھوٹا سا اخبار ’نیو ایج ‘ سب دہلی ودیگر شہروں کے شمشان گھاٹوں پر جلتیں چتاؤں کی تصاویر لگا کر رپورٹ یا تبصرے شائع کررہا ہے۔
فرانسیسی اخبار ’لی موندے‘ نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ بھارت کے موجودہ کووڈسانحہ کے لیے مجرمانہ باتوں میں کورونا وائرس کی غیر متوقع صلاحیت کے علاوہ عوام کو بہلا پھسلا کر رکھنے والی سیات اور جھوٹی ہیکڑی بھی شامل ہے۔ اخبار نے اسپتالوں اور شمشان گھاٹوں کا منظر کشیکرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وبا نے غریب اور امیر کسی کو بھی نہیں بخشا۔ اسپتال مریضوں کے بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے ، گیٹ پر ایمبولینس کی قطاریں اور آکسیجن کے لیے گڑگڑاتے تیمار دار ۔ یہ ایسے مناظر ہیں جو جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔ فروری میں جس کورونا کاگراف نیچے جارہا تھا، اس کی لائن اب سیدھی اوپر اٹھ رہی ہے۔
اس حالت کے لئے صرف کورونا وائرس کے چھلاوا کو قصور وار نہیں مانا جاسکتا ۔صاف ہے کہ اس کے دیگر وجوہات میں نریندر مودی کی کم فکری ، ہیکڑی وتکبر اورعوام کو بہلاپھسلا کر رکھنے والی ان کی سیاست شامل ہے۔آج قابو سے باہر ہورہی صورتحال میں غیر ملکی امداد کی ضرورت ہے۔
2020 میں ایک انتہائی تکلیف دہ ، مفلوج لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ، کروڑوں تارکین وطن مزدوروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا اور پھر 2021 کے اوائل میں وزیر اعظم مودی نے سیکورٹی میں نرمی کردی۔ مودی نے ماہرین صحت کے مشورے کے بجائے اپنی مشتعل ،جوشیلے راشٹر وادی تقریر کو ترجیح دی۔ جھکاؤ خود کو متحرک کرنے کیطرف نہ کہ عوام کو بچانے کے لئے ہے۔ اس طرح سے صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ اس ادارتی مضمون میں کمبھ کا بھی ذکر ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس پروگرام نے گنگاجل کوانفیکشن زدہ بنا دیا۔
لی موندے کے مضمون میں بھی مودی کی مشہور ویکسین پالیسی کی بھی سخت الفاظ میںمذمت کی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ مودی کی ویکسین پالیسی کثیرجہتی کو فروغ دینے والی تھی۔ یہ دیکھا ہی نہیں گیا کہ ملک میں ویکسین پیداواری کی صلاحیت کتنی ہے۔
فرانس کے ’لی موندے‘ اخبار کے علاوہ گلوبل ٹائمس ، انڈیپنڈنٹ ، گارجین وغیرہ نے بھی جلتی چتاؤں کی تصاویر کے ساتھ بھارت کی صورت حال پر رپورٹ شائع کی ہے۔ ان اخباروں نے لکھا ہے کہ شمشان چھوٹے پڑ رہے ہیں ، لہٰذا یہاں -وہاںخالی جگہوں پر لاشیں جلائی جارہی ہیں۔ گلوبل ٹائمس نے بھارت میں رہ رہے کورونا سے متاثر ہ ایک چینی شہری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ضرورت سے زیادہ اموات کی وجہ سے آخری رسومات سے منسلک کاروبار بھی ختم ہوچکا ہے۔
ان تمام خبروں کے درمیان بنگلہ دیشی اخبار ’نیو ایج‘ کاتبصرہ بہت ہی پُرجوش ہے۔ لکھا ہے: ’کووڈ وبا کی وجہ سے ہندوستان کی حالت اس رات کے وقت سڑک پر کھڑے اس جانور کی طرح ہوگئی ہے جس کی آنکھوں کے سامنے کار کی ہیڈ لائٹ چمک رہی ہے اور وہ سمجھ نہیں پا رہا کہ وہ کیا کرے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ حال ہی میں آسٹریلیاکے ایک معروف اخبار نے حکومت ہند کی مذمت کی تھی۔ تب ہندوستانی ہائی کمیشن نے اخبار کو پھٹکار لگائی تھی، لیکن کیا غیر ملکی میڈیا کو کوئی کنٹرول بھی کرسکتا ہے؟