ماسکو: سابق روسی صدر اور موجودہ صدر ولادیمیر پوٹن کے قریبی اتحادی دمیتری میدویدیف نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ممکنہ ایٹمی جنگ کی دھمکی دے دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین میں روس کی شکست جوہری ہتھیاروں سے جنگ کی وجہ بن سکتی ہے۔یوکرین میں روسی فوجی مداخلت کے ساتھ گزشتہ برس فروری کے اواخر میں شروع ہونے والے جنگ تقریباﹰ گیارہ ماہ سے جاری ہے اور اس میں اب تک دونوں جنگی فریقوں کا بے تحاشا جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے.
مغربی دنیا اس جنگ کی وجہ سے نہ صرف روس پر بہت سی پابندیاں لگا چکی ہے بلکہ روسی فوج کے خلاف یوکرین کی کھل کر عسکری مدد بھی کر رہی ہے۔ اس کے برعکس روس کا اندازہ تھا کہ وہ یوکرین کے خلاف اپنی جنگی مہم بہت جلد جیت لے گا تاہم ایسا نہ ہوا اور ماسکو کو اس جنگ میں ابھی تک بڑے جانی اور مالی نقصانات کا سامنا ہے۔ روس آج بھی یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ اس کے لیے یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہو گا
روسی یوکرینی جنگ کے پس منظر میں ماضی میں روسی صدر کے فرائض انجام دینے والے اور موجودہ صدر پوٹن کے بہت قریبی اتحادی دمیتری میدویدیف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر اپنے ایک بیان میں آج جمعرات انیس جنوری کے روز لکھا، ’’ایک ایٹمی طاقت کی ایک روایتی جنگ میں شکست جوہری ہتھیاروں سے جنگ شروع ہو جانے کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔‘دمیتری میدویدیف نے اپنا یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے جب بیس جنوری کے روز جرمنی میں رامشٹائن کے فضائی اڈے پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ممالک کے وزرائے دفاع کا ایک اہم اجلاس ہو رہا ہے۔
اگر روس یوکرین پر جوہری حملہ کرے تو کیا ہو گا؟
اس اجلاس میں شریک وزراء یوکرین میں روس کو فوجی شکست دینے کے لیے کییف حکومت کی مدد اور اس جنگ سے متعلق مغربی دنیا کی اب تک کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کریں گے۔
روس اور امریکہ دنیا کی دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتیں ہیں۔ یہ دونوں ملک دنیا کے 90 فیصد کے قریب جوہری ہتھیاروں کے مالک ہیں۔ آئینی طور پر روس کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے کسی بھی ممکنہ استعمال کا حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار صدر پوٹن کے پاس ہے۔(سورس:ڈی ڈبلیو)