مظفر نگر :
بھارت میں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے ساتھ ہی طبی خدمات پر زبردست بوجھ پڑا ہے۔عالم یہ ہے کہ کورونا کے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں انٹری کے ساتھ ہی ان جگہوں پر موجود سرکاری اسپتالوں میں بیمار لوگوں کا ہجوم ہے۔ مغربی یوپی کا مظفر نگر ایک ایسا ہی شہر ہے ، جہاں کورونا کیسز کے درمیان اسپتال پر زبردست بوجھ پڑا ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک ایک ہیلتھ ورکرکو مریضوں کو بچانے کے لیے ایک ہی وقت پر کئی ذمہ داری ادا کرنی پڑ تی ہے۔
مظفر نگر جیسے چھوٹے شہر میں بھی صورتحال خراب :
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یو پی میں یکم اپریل سے لے کر اب تک 7.82لاکھ انفیکشن کے معاملے سامنے آچکے ہیں ، جو کہ پورے ملک کے کیس لوٹ کا 55 فیصد ہے۔ وہیں اس دوران ریاست میں 14,151لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ جو کہ ملک میں کل مرنے والوں کی 40 فیصد ہے۔ یوپی میں کورونا کی اس لہر سے مظفر نگر جیسے شہر بھی متاثر ہوئے ہیں۔ 29 اپریل تک ریاست میں کورونا کے ایکٹیو کیس بڑھ کر 4719 تک پہنچ گئے تھے۔ جبکہ مرنے والوں کی تعداد 163 تک پہنچ گئی تھی۔ 6 مئی کو بھی ضلع کے حالات میں کچھ خاص بہتری نہیں آئی ہے اور یہاں اب بھی ساڑھے چار ہزار سے زیادہ ایکٹیو کیس بنے ہوئے ہیں۔ صرف جمعرات کو یہاں 21 موت ہوئی ہے جس سے کل مرنے والوں کی تعداد 193 ہوگئی ۔
ڈسٹرکٹ اسپتال ، جہاں ایمبولینس ڈرائیور سے لے کر نرس تک کر رہی ہیں مریضوں کی مدد:
ریاست میں صحت کی ناقص خدمات کے باوجود مظفر نگر کے ضلع اسپتال کے باہر ہجوم کو فی الحال ہیلتھ ورکرز کا ہی سہارا ہے۔ یہاں ایمبولینس اسٹاف سے لے کرنرس ذمہ دار ڈاکٹر کی طرح کام کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسا ہی ایک چہرہ ہے راہل کٹار کا جو کہ اسپتال میں ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشین کے طور پر کام کرتے ہیں اور ایمبولینس سروس کے دوران ہی مریضوں کی مدد کے کام میں مصروف ہیں۔
چونکا نے والی بات یہ ہے کہ سرکاری ملازم ہونے کے باوجود اس کے پاس نہ تو پی پی ای کٹ ہے ، نہ ہی کوئی سینیٹائزر ہے اور نہ ہی دستانے اور حفاظتی لوازمات ہیں۔ اس کے باوجودراہل کمار کا کہنا ہے کہ انہیں جب بھی کوئی بخار یا آکسیجن کی کمی سے دو چار مریض ملتا ہے تو وہ اس کی مدد میں لگ جاتے ہیں کیونکہ یہ کورونا کا ہی کیس ہوتا ہے اور وہ مریضوں کو مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔
آئیسولیشن وارڈ میں مریضوں کے ساتھ رہتے ہیںلواحقین:
نرسوں اور ایمبولینس اہلکاروں کی مدد کے باوجود ضلع اسپتال میں بنے کووڈ وارڈ کی حالت خراب ہے۔ یہاں وارڈوں میں ہر طرف کورونا کے متاثرہ مریضوں کی بھیڑ ہے۔ یہاں تک کہ اطفال وخواتین کے وارڈ بھی لوگوں سے بھرے ہیں۔ ہر مریض کے پاس ایک ممبر بھی ہوتا ہے جس کا کورونا ٹیسٹ تک نہیں ہوپا یا ہے۔ تاہم مریض کے لواحقین کا صاف کہنا ہے کہ نرس اور وارڈ بوائے اتنا زیادہ مصروف ہیں کہ اگر کوئی اپنے پریوار کے ممبر کو اکیلے چھوڑ گیا تو یہ طے نہیں ہے کہ انہیں طبی خدمات بھی ملے یا نہیں۔
صبح سے لے کر دوپہر تک اسپتال کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ زیادہ تر ڈاکٹر مریضوں کو دیکھنے میں ہی لگے رہتے ہیں ایسے میں نرس ڈاکٹروں کی ذمہ داری سنبھالتی ہیں اور وارڈ بوائے نرس کا کام دیکھنے لگتے ہیں ۔ وہیں مریضوں کے لواحقین وارڈ اسٹاف کا کام دیکھنے لگتے ہیں۔ مظفر کے سی ایم او ڈاکٹر مہاویر لال فوجدار کے مطابق ضلع انتظامیہ اپنی پوری کوشش کر رہی ہے ، لیکن ضلع میں صرف ایک میڈیکل کالج ہے جس میں 300 بستر ہیں۔ ان میں سے 197 بھرے ہوئے ہیں۔ تین نجی اسپتال ہیں ، ہر ایک میں 50 بستر ہیں اور سب بھرا ہوا ہے۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس ضلع میں 120 آئی سی یو بیڈ اور 20 وینٹی لیٹر ہیں۔