وکی پیڈیا:
سال مجاہد آزادی اشفاق اللہ خان ہندوستان کے معروف انقلابی، مجاہد آزادی اور شاعر تھے جنھوں نے ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان دے دی۔صرف 27 سال کی عمر میں اشفاق اللہ خان نے ملک کی آزادی کے لئے ہنستے ہنستے پھانسی کے پھندے پر لٹک گئے۔
شفاق اللہ خان کی پیدائش 22اکتوبر 1900 کو شاہجہاں پور اتر پردیش کے معزز گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام شفیق اللہ خان اور والدہ کا نام مظہرالنساء بیگم تھا۔
اشفاق اللہ خان بچپن ہی سے مجاہدینِ آزادی سے کافی متاثر تھے۔ عمر کے 20ویں سال میں قدم رکھتے رکھتے آپ اپنے شہر اور اس دور کے ایک بڑے انقلابی رام پرساد بسمل سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بسمل سے رابطہ میں آتے ہی آپ عملی جدوجہدِ آزادی میں سرگرم ہو گئے۔ جن دنوں مولانا محمد علی جوہر تحریک خلافت چلا رہے تھے تب بسمل اور دیگر انقلابیوں کے ساتھ مل کر آپ اس تحریک کے بارے میں عوام کو واقف کرانے اور آزادی کی جدوجہدکے لیے انہیں بیدار کرنے میں مصروف ہو گئے۔ اس دور میں آزادی کی جدوجہد تو درکنار آزادی کا خواب دیکھنا بھی برطانوی راج کے ظلم کو دعوت دینا تھا۔ اشفاق اللہ خان بھی حکومت کی نظروں میں آنے سے نہیں بچ سکے اورحکومت کے باغیوں میں شامل ہو گئے۔
’’19دسمبر1927ء کو اشفاق اللہ خان تختہ دار کی طرف اس شان سے کوچ کرنے لگے کہ ان کا ہر قدم دگنا فاصلہ طے کرتا، اس درمیان وہ کہہ رہے تھے کہ”مجھ پر جو قتل کا مقدمہ چلایا گیا وہ جعلی ہے۔میرا یقین اللہ پر ہے، وہ ہی مجھے انصاف دے گا“پھانسی کی جگہ پر پہنچتے ہی پھندے کو بے ساختہ چوم لیا۔ کچھ دیر تک اللہ رب العزت سے دعائیں کرتے رہے پھر کلمہ طیبہ کا مسلسل ورد کرنے لگے۔ یہاں تک کہ پھندا کسا گیا اور آپ شہید ہو گئے۔‘‘
خاندان
آپ کے خاندان کے اکثر لوگ برطانوی راج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ اشفاق اللہ خان اپنے چاروں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے بڑے بھائی ریاست اللہ خانرام پرساد بسمل کے ہم جماعت تھے، وہ اشفاق اللہ خان کو اکثربسمل کی شاعری اور انقلابی کارروائیوں کے قصے سنایا کرتے تھے، جس سے اشفاق اللہ خان کے دل میں انقلابی فکرو کردارجاگزیں ہو گیا۔
1922ء میں تحریک خلافت کے دورانچوری چوراکا پر تشدد واقعہ پیش آیا، جس کے بعد گاندھی جی نے خلافت تحریک کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ تحریک عدم تعاون کی منسوخی سے پر جوش انقلابیوں میں ایک بے چینی پید ا ہو گئی اور کئی انقلابیوں نے اعتدال کی راہ چھوڑ کر مسلح جدوجہد کو اپنا لیا۔ اشفاق اللہ خان بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان سے جا ملے اور حصول آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کو اپنا مقصد بنالیا۔
کاکوری واقعہ :
مسلح جنگِ آزادی کے لیے سب سے اہم مسئلہ اسلحہ جات کی فراہمی اور اس کے لیے کثیر رقم کی حصولی کا تھا۔ انقلابیوں نے طے کیا کہ برطانوی حکومت پچھلی تین صدیوں سے ہندوستان کو لوٹ رہی ہے، چنانچہ یہ رقم برطانوی حکومت کو لوٹ کر حاصل کی جائے گی۔ اس مقصد کے تحت انقلابیوں نے 8 اگست 1925ء کو ایک خفیہ نشست کی اور9 اگست1925ء کو کاکوری کے مقام پر سرکاری خزانہ لے جا رہی 8 ڈاؤن سہارنپور-لکھنؤ پیسنجر ٹرین روک کر خزانہ لوٹ لیا۔ اس ساری کارروائی میں اشفاق اللہ خان نے اکیلے ہی چھینی اور ہتھوڑے کی مدد سے آہنی تجوری کو تو ڑا۔
اس مہم کی سربراہی انقلابیوں کے سردار رام پرساد بسمل نے کی۔ اس مہم میں بسمل اور اشفاق اللہ خان کے علاوہ دیگر 8 انقلابی بھی شامل تھے۔ کاکوری واقعہ تاریخ آزادی ہند میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے درج ہوا۔ یہ واقعہ انگریزوں کی طاقت، ان کے غرور و گھمنڈ پر ایک کاری ضرب تھا، جس سے برطانوی حکومت بوکھلا اُٹھی۔ ہندوستان میں موجود برطانوی وائسرائےلارڈ ریڈنگ نے فوراً اسکاٹ لینڈ یارڈ پولس محکمے کو تفتیش کے لیے نامزد کیا۔ خفیہ پولس نے مہینے بھر ہی میں اس واقعہ میں ملوث انقلابیوں کو شاہجہاں پور شاہجہاں پور سے گرفتا ر کر لیا۔ اشفاق اللہ خان گرفتاری سے بچ کر کسی طرح روپوش ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ بنارسپہنچ کر وہ ایک انجینئری کمپنی میں ملازمت کرنے لگے۔ وہ رات دن اس فکر میں تھے کہ کسی طرح ملک سے باہر جاکر لالہ ہردیال سے ملیں۔
لالہ ہردیال ان دنوں امریکا میں مقیم تھے اور اپنے ذاتی افکار کی تحریر و تقاریر کی مدد سے عوام میں تبلیغ کر رہے تھے۔ شروعاتی دور میں لالہ ہردیال کمیونزم سے خاصے متاثر رہے۔ اشفاق اللہ خان لالہ ہردیال سے مل کر انھیں آزادی وطن کی سرگرمیوں میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ انہی سے ملنے کی خاطر اشفاق اللہ خان بنارس سے دلی آئے تاکہ جلد ملک سے باہر جاسکیں، لیکن ان کے ایک پٹھان دوست نے سیاہ بختی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو گرفتار کروادیا۔
اشفاق اللہ خان فیض آباد جیل روانہ کردیے گئے جہاں پر ان کے خلاف قتل، ڈکیتی اور حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ چلایا گیا۔ اشفاق اللہ خان کے بھائی ریاست اللہ خان نے کرپا شنکر ہجیلہ کو ان کے مقدمے کی پیروی سونپی۔ کرپاشنکر صاحب نے مقدمے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن برطانوی ظالم حکومت نے عدالتی کارروائی محض خانہ پوری کے لیے کی تھی، چنانچہ انہیں سزائے موت سنائی گئی۔ کاکوری سازش کے تحت برطانوی حکومت نے اشفاق اللہ خان، رام پرساد بسمل، راجندر لہری اور ٹھاکر روشن سنگھ کو سزائے موت اور دیگر 16 انقلابیوں میں سے چار کو سزائے عمر قید و باقی کو چار سال کے لیے قید بامشقت کی سزا تفویض کی۔ مقدمے کے دوران انگریزوں نے اشفاق اللہ خان کو سرکاری گواہ بنانے اور رام پرساد بسمل کے خلاف گواہی دینے کے لیے رضامند کرنے کی خاطر پولس انسپکٹر تصدق حسین کو نامزد کیا، جس نے اشفاق اللہ خان کو مذہب کا واسطہ دے کر کہا کہ تم کیسے مسلمان ہو جو ایک ہندو کا ساتھ دے رہے ہو، جو اس ملک کو ہندو راشٹربنانا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں اشفاق اللہ خان نے کہا کہ رام پرساد کا ہندو راشٹر آپ کے برطانوی حکومت سے بہتر ہوگا۔ جن لوگوں نے اشفاق اللہ خان کو اسیری کے زمانے میں دیکھا ان کا بیان ہے کہ جیل میں بھی اشفاق اللہ خان پابندی سے پانچوں وقت کی نماز ادا کرتے اور روزانہ تلاوت قرآن بھی کرتے۔ یہ قرآن ہی کا اعزاز ہے کہ وہ انگریزوں کی چالوں میں نہیں آئے اور انہوں نے سرکاری گواہ بننے کی انگریزوں کی درخواست کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا۔ بھلا ایک شاہین صفت کرگس کے پھندوں میں کب آنے والا تھا۔ ایک دفعہ جب اشفاق اللہ خان نماز پڑھ رہے تھے، تب کچھ انگریز افسر وہاں آئے۔ ان میں سے ایک نے اشفاق اللہ خان پر فقرہ کسا کہ ’ دیکھتے ہیں جب ہم اس چوہے کو پھانسی پر لٹکائیں گے اس کا مذہب اور اس کی یہ عبادت اس کو کیسے بچائے گی،‘ اس پر اشفاق اللہ خان نے بالکل دھیان نہ دیا اور اپنی نماز میں مشغول رہے، گویا انھوں نے کچھ سنا ہی نہیں۔ اس پر وہ انگریز افسر بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔