نئی دہلی :
فیس بک اور ٹویٹر جیسے زیادہ تر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ، جن کا یوزر بیس 50 لاکھ سے زیادہ ہے ، انہوں نے ابھی تک سرکار کے نئے قوانین پر عمل نہیں کیا ۔ نئے قوانین کے لیے سرکار کی جانب سے ان کمپنیوں کو 3 ماہ کا وقت دیا گیا تھا جو آج یعنی 25 مئی کو ختم ہو رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق زیادہ تر ملٹی نیشنل سوشل میڈیا پلیٹ فارم ابھی تک نئے قوانین پر عمل نہیں کررہے ہیں ، اگر اس قوانین کو لے کر کوئی رپورٹ سرکار کے پاس 25 مئی تک نہیں آتی ہے تو کمپنی کو بھی کسی یوزر کے پوسٹ کے لیے قانونی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے گا۔
آسان زبان میںکہیں تو اگر کوئی سوشل میڈیا پر کسی پوسٹ یا مواد سے خوش نہیں ہے تو وہ مواد پوسٹ کرنے والے شخص اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم دونوں کو کورٹ لے جا سکتا ہے، ابھی تک ’’ذرائع‘‘ کی وجہ سے کمپنیوں کو اس میں قانونی تحفظ دیا جا رہا تھا ۔
اس گائڈ لائنس کو لے کر امسال 25 فروری کو وزیر قانون روی شنکر پرساد اور وزیر اطلاعات ونشریات پرکاش جاوڈیکر نے پریس کانفرنس کرکے اس کی جانکاری دی تھی، انہوں نے کہاتھا کہ ان گائڈ لائنس پر عمل کرنے کے لیے کمپنی کو تین مہینے کا ٹائم دیا جا رہاہے ۔
انڈیا ٹو ڈے ٹی وی کے ذرائع کے حوالہ سے تین مہینے میں تین بار حکومت ہند (میٹ وائی) کی جانب سے ٹویٹر کے ٹاپ ٹیم کو کال کیا گیا ہے ، لیکن ٹویٹر نے کسی بھی کال کا رپلائی نہیں دیا ہے، سرکار ان پلیٹ فارم کے سرکاری گائڈ لائنس اور قوانین کو ڈیل کرنے والے رویہ سے کافی ناخوش ہے۔
ہندوستانی سوشل میڈیا کمپنی ’کو‘ (Koo) جس کا یوزر بیس 50 لاکھ سے زیادہ ہے ، اس نے اس گائڈ لائنس کو قبول کیا ہے۔ نئی گائڈ لائنس کے مطابق جن سوشل میڈیا پلیٹ فارم کایوزر بیس 50 لاکھ سے زیادہ ہے انہیں مقامی شکایت افسر، چیف تعمیل افسر اور نوڈل رابطہ عامہ شخص کو رکھنا ہے ۔
ایک سینئر افسر نے بتایا کہ یہ لوگ ہندوستان میں اچھی کمائی کرتے ہیں لیکن شکایت پرسماعت کے لئے اپنے ہیڈ کوارٹر امریکہ کے رہنما خطوط کاانتظار کرتے ہیں۔ ٹویٹر کے پاس اپنے فیکٹ چیکرس ہے، جن کا نام پبلک میں نہیں ہے، وہ انہیں کسی بنیاد پر سلیکٹ کرتے ہیں ۔
25 مئی کے بعد بھی یہ پلیٹ فارم کام کرتے رہیں گے ، لیکن کسی بھی یوزر کے پوسٹ کے لیے انہیں قانونی تحفظ نہیں دیا جائے گا۔ ابھی تک یہ کمپنیاں سیکشن 79 آف انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت وہ کسی یوزر کے پوسٹ کے لیے قانونی طور پر ذمہ دار نہیں ہوتی تھیں اب اس گائڈ لائنس پر عمل نہیں کرنے پر انہیں بھی ہندوستانی قانون کے حساب سے قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے ۔