نئی دہلی :
ملک میں کورونا بحران کے بارے میں جمعہ کو سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی۔ سماعت کے دوران جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے کہا کہ صرف قومی اہمیت کے امور کی ہی جانچ ہوگی ۔
اسی کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا کہ مرکزی حکومت سو فیصد ویکسین کیوں نہیں خریدتی ۔ اسے قومی ٹیکہ کاری پروگرام کے ماڈل پر ریاستوں کو تقسیم کیوں کرتی ہے تاکہ ویکسین کی قیمت تضاد نہ رہے۔سپریم کورٹ نے کہاکہ آخرکار یہ ملک کے شہریوں کے لیے ہے۔
ناخواندہ یا انٹرنیٹ تک رسائی نہ رکھنے والوںکو ویکسین کیسے ملے گی؟ :عدالت
اس کے علاوہ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ کچھ ایسی درخواستیں ہمارے سامنے دائر کی گئیں ہیں ، جو مقامی معاملات کو سنجیدہ انداز میں اٹھاتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ ایسے معاملات کو ہائی کورٹ میں اٹھایاجانا چاہئے۔ وہیں بنچ نے سوال کیا کہ ناخواندہ یا انٹرنیٹ تک رسائی نہ رکھنے والے ویکسین کیسے لگوائیں گے؟
مرکز سے کورونا مریضوں کی قومی پالیسی کے بارے میں سوال
عدالت نے مزید کہا کہ پچھلے ایک سال میں مرکزی حکومت نے ویکسین کمپنیوں پر کتنا سرمایہ لگایا اور کتنی ایڈوانس رقم دی گئی؟ یہی نہیں مرکز کو پھٹکار لگاتے ہوئے کورٹ نے کہاکہ کیا مرکزی سرکار مریضو ں کے لیے اسپتالوں میں داخلے پر کوئی قومی پالیسی بنا رہی ہے؟ کیا قیمتوں کا تعین باقاعدہ کیا جارہا ہے؟
سوشل میڈیا پر اپیل کرنے والے لوگوں کے خلاف کوئی ریاست نہیں کرسکتی کارروائی : سپریم کورٹ
عدالت نے مزید کہا کہ ان ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکرس کو علاج دینے کے لیے کیا کیا جارہا ہے جو کووڈ 19-کے رابطے میں ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر اس بحران کے وقت لوگوں کے ذریعہ اپیل کرنے پر کوئی ریاست ان کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرسکتی یاکوئی کارروائی نہیں کرسکتی۔
کارروائی کو توہین سمجھا جائے گا : عدالت
سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ اگر ریاست ایسا کرتی ہے تو ہم اسے توہین عدالت سمجھیں گے، ہمیں اپنے شہریوں کی آواز سننی چاہئے اور ناکہ ان کی آواز کو دبانا چاہئے۔ اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار سے پوچھا کہ کیا بھارت میں آکسیجن کی دستیابی کافی ہے جبکہ فی دن 8500 میٹرک ٹن کی اوسط مانگ ہے۔
اس کے جواب میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر 10,000 میٹرک ٹن آکسیجن دستیاب ہے۔ آکسیجن کی کمی نہیں ہے، لیکن کچھ ریاستوں کے ذریعہ آکسیجن کم مقدار میں لینے کی وجہ سے کچھ علاقوں میں دستیابی کم ہوجاتی ہے۔