نئی دہلی :(ایجنسی)
گزشتہ چند مہینوں میں ملک کے کئی حصوں میں پرتشدد جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں اور اس کے بعد انتظامیہ نے بھی سخت رویہ اختیار کیا ۔ اتر پردیش میں مقبول بلڈوزر اب کئی ریاستوں میں پہنچ چکا ہے اور مبینہ شرپسندوں کے ذریعہ امن کو خراب کرنے کی کوشش کئے جانے پر انتظامیہ ان کی غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کررہی ہے ۔ وہیں اب اقوام متحدہ کے تین خصوصی ایلچی نے بلڈوزر کی کارروائی کی مخالفت کی ہے اور اس کے خلاف احتجاج میں مرکز کو خط بھی لکھا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے 9 جون کو ہی خط لکھ کر احتجاج درج کرایا تھا۔ لیکن اس کے ٹھیک 3 دن بعد یعنی 12 جون کو پریاگ راج تشدد کے ملزم بنائے گئے جاوید احمد عرف پمپ کے گھر پر بلڈوز چلا دیا گیا، جس کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی مخالفت کی۔ ساتھ ہی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ بلڈوزر کی کارروائی سے پہلے کئی بار نوٹس دیے گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی طرف سے بلڈوزر کارروائی کی مخالفت کی تصدیق میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے شعبہ شہری مطالعہ اور منصوبہ بندی میں قانون اور ترقی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر بالاکرشنن راج گوپال نے دی وائر کے صحافی کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں کی تھی۔
بالاکرشنن راج گوپال نے انٹرویو کے دوران کہا،’’ہم نے بہت سے خدشات کا اظہار کیا ہے اور ہم نے اپنے خدشات کو حکومت ہند پر بالکل واضح کر دیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ دراصل تشدد کی کارروائیوں سے بالاتر ہے۔ اس کا ایک نمونہ ہے اور ہاں، یہ تشویش کا باعث ہو سکتا ہے۔ وہ اجتماعی سزا کے مترادف ہو سکتے ہیں۔‘‘
خصوصی مندوبین کے دفتر کے مطابق، ہندوستان کے پاس 9 جون کے خط کا جواب دینے کے لیے 60 دن ہیں۔ اگر بھارت نے جواب دیا تو جواب اور خصوصی ایلچی کا خط دونوں ایک ساتھ شائع کیے جائیں گے۔ بالاکرشن راج گوپال کے دفتر نے کہا، ’مناسب حالات میں، بشمول سنگین تشویش کے معاملات، خصوصی ایلچی پریس بیان، دیگر عوامی بیان یا پریس کانفرنس کر سکتا ہے۔‘
راج گوپال کے دفتر نے وضاحت کی، ’وہ ہندوستانی حکومت اور اس کی آزاد عدلیہ سے توقع کرتے ہیں کہ وہ عوامی بیانات یا اپنے عدالتی فیصلوں کے ذریعے واضح طور پر بات چیت کریں گے تاکہ کسی بھی من مانی مکانات کی مسماری کو فوری طور پر روکا جائے۔‘ مشتبہ افراد (تشدد کے معاملات میں) کو فوجداری قانون کے قائم کردہ طریقہ کار کے تحت جوابدہ ہونا چاہیے اور اگر قصوروار ثابت ہو تو جرمانہ یا سزا دی جا سکتی ہے۔‘