حال ہی میں اتر پردیش کے ایک اسکول میں ایک ٹیچر کا مبینہ طور پر اسکول کے طالب علموں کو اپنی مسلم ہم جماعت کو تھپڑ مارنے کے لیے اکسانے کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے پیر کو اس معاملے کی سماعت کی۔ عدالت نے جانچ کے طریقوں اور درج ایف آئی آر میں الزامات کو چھوڑنے پر اتر پردیش پولیس کی سرزنش کی ہے۔جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس پنکج مٹھل کی بنچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر میں کچھ بڑے الزامات کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
قانون سے متعلق نیوز ویب سائٹ بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق کیس کی سماعت کرنے والی بنچ نے کہا کہ ایف آئی آر درج کرنے کے طریقے پر ہمیں شدید اعتراض ہے۔باپ نے ایک بیان دیتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ مسلمان طالب علم کو اس کے مذہب کی وجہ سے مارا پیٹا گیا۔ لیکن ایف آئی آر میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ بنچ نے پوچھا کہ ویڈیو ٹرانسکرپٹ کہاں ہے؟
سماعت کرنے والی بنچ نے تند و تیز ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معیاری تعلیم میں حساس تعلیم بھی شامل ہے۔ جس انداز میں یہ واقعہ پیش آیا اس سے ریاست کے ضمیر کو جھنجھوڑنا چاہیے۔
دریں اثنا، یوپی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) کے ایم نٹراج نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں ‘فرقہ وارانہ زاویہ’ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ ان کی دلیل پر جسٹس اوکا نے جواب دیا اور کہا کہ یہ صرف کچھ نہیں ہے، بہت سنگین ہے۔ استاد نے بچے کو اس کے مذہب کی وجہ سے مارنے کا حکم دیا۔ کیسی تعلیم دی جا رہی ہے؟
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس معاملے میں تحقیقات کی نگرانی ریاستی حکومت کی طرف سے نامزد کردہ انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) کے ایک سینئر افسر کو کرنی چاہیے۔عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ افسران اس معاملے میں تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے کی جانچ کریں یا نہیں۔ کیا نفرت انگیز تقریر کرنا تعزیرات ہند کے تحت جرم ہے یا نہیں۔سپریم کورٹ مہاتما گاندھی کے پوتے تشار گاندھی کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی جس میں متعلقہ سکول ٹیچر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔