سدھیندرا کلکرنی
ایک لیڈر کی قیادت کو چیلنج ملے ، اس سے پہلے ہی اس کی ساکھ کو چیلنج ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ جب اس پر لوگوں کا اعتماد ٹوٹنے لگتا ہے تو اس بات کا خطرہ بھی ہوتا ہے کہ اگر ان دراروں کو بھرا نہیں جائے تو اس کی قیادت کا عظیم الشان محل بھی منہدم ہوجائے گا۔
کیا وزیر اعظم مودی کی سیکورٹی شیلڈ ٹوٹ رہا ہے؟
لیکن جو لوگ غیر جانبدار ہیں، ان کی بےچینی ابتدائی مرحلے میں نقصان دہ نہیں ہوتی ہے۔ جب تک وہ کسی نہ کسی فریق کی جانب لڑھک نہ جائیں۔ ہاں جب وفادار مایوس ہونے لگیں اور اعتمادیت پر سوال کھڑے کرنے لگیں ، تب کسیقائد کی حفاظتی ڈھال ٹوٹنے لگتا ہے ،ایسے میں اس ڈھال میں چھوٹی سے چھوٹی ٹوٹ بھی اپوزیشن کا ایک وار برداشت نہیں کرسکتی، اس کے بعد وہ قائد غیر محفوظ ہو جاتا ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت کسی بھی حساب سے غیر محفوظ نہیں ہیں۔ پھر بھی ، گزشتہ سات سالوں میں (سات سال قبل وہ ملک کے وزیر اعظم بنے تھے) ، یہ پہلی بار ہے کہ ان کی ساکھ پر آنچ آئی ہے، ا پوزیشن کی تنقید یں مزید گہری ہوئیں، لیکن وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔
وزیر اعظم مودی اپوزیشن سے نمٹنا جانتے ہیں، کیونکہ اپوزیشن ابھی بھی کمزور ہے۔ بکھرا ہوا ہے،قیادت کے بحران سے نبرد آزما ہے۔ اس کے پاس ترقی اور اچھی حکمرانی کے لئے بہتر آپشن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم اس بات سے بھی پریشان نہیں ہیں کہ حقیقت پسند اور غیر جانبدار لوگ ان سے ناخوش ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان لوگوںکے من میں اپوزیشن پارٹیوں کے لیے بھی کوئی پیار نہیں ہے۔
وزیر اعظم کو کس بات سے پریشان ہونا چاہئے
مودی کوجس بات کے لیے پریشان ہونا چاہئے ، وہ یہ ہے کہ سنگھ پریوار میں کئی لوگ اور ان کے حامی بھی اب پریشان ہو رہے ہیں ۔ وہ لوگ جانتے ہیں کہ کووڈ بحران کی دوسری لہر کے پھیلنے کے بعد وزیر اعظم کی مقبولیت پر زبردست اثر پڑا ہے۔ آزاد بھارت پہلی بار اتنا برا نسانی بحران کا سامنا کیا ہے ۔ تمام لوگ جان گئے ہیںاور تعداد بھی کہتے ہیں کہ بدانتظامی کا کیا عالم ہے۔
پارٹی اقتدار کے نشے میں چور ہے اور سرکار کاہلی اور لاپروائی ، ان سب کے سبب نہ تو بحران کے لیے کوئی منصوبہ بنائی اور نہ ہی کوئی تیاری کی گئی۔ زندگی بچانے والی آکسیجن کی فراہمی، ویکسین کی خرید، اسپتالوں میں بیڈز اور آئی سی یو کی تعداد بڑھانا اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ تال میل ۔ یہ سب کچھ نہیں کیا گیا ، مگر مودی نے ہیری ٹرومین سے بھی نہیں سیکھا۔ سابق امریکی صدر ٹرومین اوول میں اپنے ڈسک پر ایک سائن رکھا کرتے تھے -’ د ی بک اسٹاپس ہیر‘، یعنی ان تک پہنچ کر سب کچھ رک جاتا تھا۔
لیکن ہندوستان میں ہر چیز وزیر اعظم تک پہنچ کررک نہیں جاتی۔ وہ تنہا سب فیصلے لینے والے شخص نہیں ہوتا۔ 1947 کے بعد کسی وزیر اعظم نے اپنی سرکار کا اس طرح شخصیت سازی نہیں کیانہ ہی پی ایم او اقتدار کا اکیلا اڈہ بنا۔ اس وقت مودی کے دفتر کو تمام حقوق ملے ہوئے ہیں ۔
اندرا گاندھی کی حکومت میں ایمرجنسی (1975-77)میں کابینہ کچھ حد تک بے اختیار ہو گئی تھی۔ اس کے بعد آج کے حالات ہیں، جیسا کہ نیو انڈیا ایکسپریس نے 16 مئی کو لکھا تھا :’بحران پر قابو پانے میں کابینہ کا کوئی رول نہیں ہے، پی ایم او ہی سارے فیصلے رہا ہے ، کابینہ نے صرف یہ کیا ہے کہ یکم اپریل کو کچھ اہم فیصلے کئے ہیں، (جوکہ کووڈ سے متعلق نہیں ہیں)
اس لئے مودی بھارت میں اس تباہی کی ذمہ داری لینے سے بچ نہیں سکتے اور نہ ہی اس کے لیے کسی دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں۔