اسرائیلی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور اٹارنی جنرل کے دفتر نےاس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف اسرائیل پر غزہ کی پٹی میں نسل کشی کا الزام عائد کرسکتی ہے۔
یہ تشویش ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں تین ماہ کے دوران اسرائیل نے بے دریغ اور اندھا دھند بمباری کرکے ہزاروں عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔اسرائیلی اٹارنی جنرل کے دفتر نے جنوبی افریقہ کی درخواست پر ان کے ملک پرغزہ میں نسل کشی کا الزام لگانے کے عالمی عدالت انصاف کے امکان پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
قانونی ماہرین کا انتباہ
اسرائیلی اخبار "ہارٹز” کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج اور اٹارنی جنرل کے دفترنے پہلے ہی شکایت سے نمٹنے کے لیے تیاری شروع کر دی ہے، جبکہ پیر کو وزارت خارجہ میں ایک سماعت ہونے کا امکان ہے۔
دریں اثناء ایک سینیر قانونی ماہر نے چیف آف سٹاف سمیت فوجی اہلکاروں کو بین الاقوامی محکمہ انصاف کے ایک عدالتی حکم جاری کرنے کے خطرے سے خبردار کیا جس میں اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ہیگ میں قائم عدالت انصاف نے گذشتہ جمعہ کو کہا کہ جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف غزہ کی پٹی میں "نسل کشی” کا الزام لگاتے ہوئے اسرائیلی لیڈرشپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔
غیر پابند فیصلہ
قابل ذکر ہے کہ غزہ کی پٹی میں تقریباً 3 ماہ قبل جنگ کے آغاز سے اب تک ہلاکتوں کی تعداد 21 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد 56 ہزار 451 ہو گئی ہے۔گذشتہ سات اکتوبر2023ء کو اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ سخت محاصرے کی وجہ سے پینے کے پانی کی قلت اور صحت کی سہولیات کا شدید فقدان ہے جب کہ انسانی صورت حال ابتر ہوچکی ہے۔اگر بین الاقوامی عدالت انصاف اسرائیل پر جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام عائد کرتی ہے تو یہ لازمی فیصلہ نہیں ہوگا، لیکن اس سے اسرائیل کو سخت اخلاقی دھچکا لگے گا۔ دنیا بھر میں اس وقت اسرائیل کے خلاف غزہ میں جنگ جرائم کے الزامات عاید کیے جا رہے ہیں اور غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کی مذمت میں اضافہ ہوا ہے۔