تولین سنگھ نے بھارت منڈپم کے چمکتے ہوئے آڈیٹوریم میں وزیر اعظم نریندر مودی کی اس تقریر کی تعریف کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دنیا کے ممالک میں اعتماد میں کمی آئی ہے اور اس اعتماد کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے واسودھیوا کٹمبکم کی یاد دلائی۔ دنیا کے سیاست دان وزیر اعظم نریندر مودی کی باتوں سے اسی طرح متاثر نظر آئے جیسے وہ تھے جب نریندر مودی نے ولادیمیر پوتن کو مشورہ دیا تھا کہ یہ جنگ کا وقت نہیں ہے۔ ناقدین نے G-20 کانفرنس کی کامیابی کا کریڈٹ بھی نریندر مودی کو دیا۔ لیکن، وزیر اعظم اپنے ملک کے اندر اپنی کہی ہوئی باتوں پر عمل درآمد کیوں نہیں کر پائے؟
ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو خلیج اب نظر آرہی ہے وہ تقسیم کے بعد شاید ہی اس حد تک نظر آئی۔ ایک نئی قسم کی انتہا پسندی ناراض ہندوتوا قوم پرستی کا لبادہ اوڑھ کر پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔
پہلو خان کی طرح کے واقعات سے مسلمانوں سے زیادہ ملک کا نقصان ہوا ہے۔ ہر واقعے کے بعد لگتا ہے کہ وزیر اعظم اپنے مشتعل پیروکاروں کو روکنے کے لیے سختی سے کام لیں گے۔ لیکن، ہندوتو وادیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ لوک سبھا انتخابات سر پر ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بھی قیمت پر مودی کو ووٹ دیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب بدامنی اور انارکی پھیلتی ہے تو بیرونی سرمایہ کار بھاگنے لگتے ہیں۔ ملک کی معاشی ترقی کا انحصار سماجی اور سیاسی امن پر ہے۔
وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ ملک کے اندر بھی اعتماد، انسانیت اور امن کی بات شروع کریں۔ جب ہم اپنے ہی خاندان کو محفوظ رکھنے کے قابل نہیں ہیں تو ہم واسودیوا کٹمبکم کے بارے میں کیسے بات کر سکتے ہیں؟
(بشکریہ :انڈین ایکسپریس ،یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)