اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر ایران کے ڈرونز اور میزائل حملے کا جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے، تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں کہ یہ جواب کب اور کیسے دیا جائے گا۔ غزہ کی جنگ کے باعث کئی ماہ سے جاری بدامنی کے تناظر میں مشرق وسطیٰ کا خطہ مزید کشیدگی کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔
اسرائیل کے قریبی اتحادی ممالک بشمول امریکہ اور برطانیہ، جنہوں نے ایرانی حملے کو پسپا کرنے میں اسرائیل کی مدد کی تھی، کسی بھی کشیدگی کو مزید پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے سالانہ فوجی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کو کسی بھی قسم کی انتقامی کارروائی کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ اسرائیل کے ممکنہ جوابی حملے کے پیش نظر اس مرتبہ سالانہ پریڈ کو ایک بیرک میں منتقل کر دیا گیا تھا جبکہ خلاف معمول اس کو لائیو نشر بھی نہیں کیا گیا۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق صدر رئیسی نے کہا ہے کہ اسرائیل پر اختتام ہفتہ پر کیا گیا حملہ محدود تھا اور یہ کہ اگر ایران اس سے بڑا حملہ کرنا چاہے، تو ”صیہونی حکومت کا کچھ بھی نہیں بچے گ
دریں اثنا لبنان کی طرف سے فائر کیے جانے والے راکٹ حملوں سے بھی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بدھ کے روز حزب اللہ کے ایک راکٹ حملے کے نتیجے میں مزید چھ اسرائیلی زخمی ہو گئے۔ ایرانی حمایت یافتہ اس لبنانی عسکریت پسند گروپ نے کہا ہے کہ یہ راکٹ حملہ ایک روز قبل لبنان پر اسرائیلی حملوں میں اس کے ایک کمانڈر سمیت متعدد جنگجوؤں کی ہلاکت پر ردعمل تھا۔
برطانوی اور جرمن وزرائے خارجہ اسرائیل میں
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون اور جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک دونوں نے ہی آج بدھ 17 اپریل کو اسرائیل کے اعلیٰ حکام سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔ ان دونوں یورپی ممالک نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل سے کام لے۔
کیمرون نے کہا، ”یہ واضح ہے کہ اسرائیلی ایران کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔‘‘ تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسرائیل سمجھداری سے ایسا جواب دے گا، جس سے تنازعہ جتنا ممکن ہو، کم ہو سکے۔ کیمرون نے مزید کہا کہ ان کے دورے کا بنیادی مقصد غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت اور حماس کے ہاتھوں یرغمالیوں کی رہائی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔