نئی دہلی : ( ایجنسی)
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرکاریواہ دتاتریہ ہوسبلے نے آر ایس ایس لیڈر رام مادھو کی کتاب کے اجراء کے پروگرام کے دوران کہا کہ ہم نہ صرف دائیں بازو بلکہ بائیں بازو کے خیالات کا بھی احترام کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں دونوں فریقوں کے لیے جگہ ہے۔
آر ایس ایس لیڈر رام مادھو کی لکھی ہوئی کتاب ’دی ہندوتوا پیراڈئم‘ کی رسم اجرا تقریب میں وہاں موجود لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے سنگھ کے سرکاریواہ دتاتریہ سوسبلے نے کہاکہ میں سنگھ سے ہوں، ہم نے سنگھ کے تربیتی کیمپوں میں کارکنوں کو کبھی نہیں کہا کہ ہم دائیں بازو ہیں۔ ہمارے کئی خیالات بائیں بازو خیالات کی طرح ہیں ۔ ہمارے یہاں بائیں اور دائیں دونوں فریقوں کے نظریات کے لیے جگہ ہے۔ کیونکہ یہ ایک انسانی تجربہ ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی روایت میں کوئی فل اسٹاپ نہیں ہے۔ اسے بائیں یا دائیں کہنا موجودہ جغرافیائی سیاست کے لیے موزوں ہے۔ مغرب اور مشرق پوری طرح سے ایسے نہیں ہیں۔ ہم نے کبھی نہیں کہاکہ ہم دائیں بازو ہیں ۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ جغرافیائی یا سیاسی تقسیم مشرق اور مغرب کی طرح ہے جو لبرلائزیشن ، پرائیویٹائزیشن اور گلوبلائزیشن کے بعد دھندلے اورمدھم پڑ گئے ہیں ۔
اس دوران آر ایس ایس کے سرکاریواہ دتاتریہ ہوسبلے نے یہ بھی کہا کہ دنیا بائیں طرف چلی گئی تھی یا بائیں طرف جانے کے لیے مجبور کیا گیا تھا، لیکن اب صورت حال ایسی ہے کہ دنیا دائیں جانب بڑھ رہی ہے اس لئے یہ مرکزمیں ہے ۔ یہی ہندوتوا ہے جو نہ تو لیفٹ ہے اور نہ ہی رائٹ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ہندوستانی عدالتی نظام کو لے کر کہاکہ برٹش نوآبادیات سے لیا گیا یہ سسٹم بھارت کے لیے مواقف نہیں ہے ۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تبصرہ کا حالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کے لیے موزوں نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ آر ایس ایس لیڈر دتاتریہ ہوسبلے نے کتاب کے عنوان میں لفظ ہندوتوا کے استعمال پر طنز کیا اور کہا کہ اس میں بھی ہندوتوا ہے۔ لیکن لوگ پہلے یہ لفظ استعمال کرنے سے گریز کرتے تھے۔ اس دوران انہوں نے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو سیکولرازم کا سب سے بڑا پجاری قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہ بھارتیہ وراثت سے تعلق رکھتے ہیں جو تیرتھوں سے بندھی ہوئی ہے ۔