نئی دہلی :(ایجنسی)
قطب مینار کے تنازع کے درمیان تاریخی احاطے میں کھدائی کی جائے گی۔ وزارت ثقافت نے ہدایت دی ہے کہ قطب مینار میں مورتیوں کی (Iconography)تصویر کشی کرائی جائے۔ رپورٹ کی بنیاد پر قطب مینار کمپلیکس میں کھدائی کا کام کیا جائے گا۔ اس کے بعد اے ایس آئی اپنی رپورٹ وزارت ثقافت کو سونپے گا۔
کلچر سکریٹری نے عہدیداروں کے ساتھ معائنہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے قطب مینار کے جنوب میں اور مسجد سے 15 میٹر کے فاصلے پر کھدائی کا کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ بتادیں کہ قطب مینار ہی نہیں، اننگتل اور لال کوٹ قلعہ پر بھی کھدائی کاکام کیا جائے گا۔
ٹیم نے کلچر سکریٹری گووند موہن کے ساتھ معائنہ کیا
قطب مینار کمپلیکس کی کھدائی کے فیصلے سے پہلے کلچر سکریٹری گووند موہن نے 12 لوگوں کی ٹیم کے ساتھ معائنہ کیا۔ اس ٹیم میں 3 مورخ، 4 اے ایس آئی افسر اور محقق تھے۔ اس معاملے میں اے ایس آئی حکام کا کہنا ہے کہ قطب مینار میں 1991 سے کھدائی کا کام نہیں ہوا ہے۔
991 کے بعد نہیں ہوئی کھدائی کا کام
اے ایس آئی حکام کا کہنا ہے کہ 1991 سے اب تک قطب مینار میں کوئی کھدائی کا کام نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی تحقیقیں زیر التوا ہیں جس کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
قطب مینار کا نام تبدیل کرنے کی مانگ
قطب مینار کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ بھی حال ہی میں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ہندو تنظیموں کے کچھ کارکنوں نے ہنومان چالیسا کا پاٹھ کیا تھا۔ ہندو تنظیموں نے قطب مینار کا نام بدل کر وشنو ستمبھ رکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ہندو تنظیم کے ایک کارکن نے کہا تھا کہ مغلوں نے اسے ہم سے چھین لیا ہے۔ ہم اس حوالے سے اپنے مطالبات پیش کر رہے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ قطب مینار کا نام بدل کر وشنو ستمبھ رکھا جائے۔
بھگوان گنیش کی مورتیوں پر بھی تنازع کھڑا ہوا
قطب مینار میں رکھی بھگوان گنیش کی مورتیوں کو لے کر بھی تنازع ہوا تھا۔ مہرولی کی بی جے پی کارپوریٹر آرتی سنگھ نے مطالبہ کیا تھا کہ قطب مینار میں مورتیوں کو صحیح جگہ پر رکھا جائے اور وہاں پوجا آرتی کی جائے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ قطب مینار میں مندر ہونے اور دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کو مسخ شدہ طریقے سے رکھنے کا تنازع کئی دہائیوں پرانا ہے۔