تریپورہ (مسیح الزماں انصاری)
| بھارت کی شمال مشرقی ریاست تریپورہ میں گزشتہ ہفتوںہوئےمسلم مخالف تشدد کے معاملے میں دہلی سے وکلاء کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے ترپیورہ کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے میڈیا کو رپورٹ جاری کیا تھا جس کے بعد بدھ کو تریپورہ پولیس نے فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے دو ممبر ان کو یو اے پی اے کےتحت نوٹس بھیجا ہے ۔
یہ نوٹس دہلی کے دو وکیلوں ایڈوکیٹ مکیش اور ایڈوکیٹ انصار اندوری کو بھیجا گیا ہے۔ نوٹس میں وکلاء کے ذریعہ تریپورہ تشدد سے متعلق مواد، بیانات اور ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ آپ کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا مواد مختلف مذہبی جماعتوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دینےوالا ، لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے والا اور امن میں خلل ڈالنے والاہے۔
انڈیا ٹومارو سے بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ انصار اندوری نے کہا ہے کہ ہم نے انہی رپورٹ ، ویڈیو یا مواد کو پبلک کیا ہے یا سوشل میڈیا پر شیئر کیاہے جو ہمیں گراؤنڈ سے ملی ہے ۔
مغربی تریپورہ پولیس کی طرف سے جاری نوٹس میں دونوں وکلاء سے کہا گیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے مواد کو لیٹ کرنے کو کہا گیا ہے اور ساتھ ہی پوچھ گچھ کے لیے 10نومبر کو مغربی اگرتلہ پولیس اسٹیشن میں حاضر ہونے کے لیے کہا گیاہے ۔
ایڈوکیٹ مکیش دہلی میں لاء پریکٹس کرتےہیں اورشہری حقوق کی تنظیم پیپلزیونین فار سول لبرٹی ( پی یو سی ایل) سے جڑے ہوئے ہیں۔ دوسرے وکیل انصار اندوری ہیں جو سپریم کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں اور ساتھ ہی حقوق کی تنظیم نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن ( این سی ایچ آر او) کےسکریٹری ہیں ۔
دونوں وکیل تریپورہ تشدد کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ تھے اور گراؤنڈ سے ملی اطلاعات اور شواہد کی بنیاد پر پہلے تریپورہ میں اور پھر دہلی میں پریس کانفرنس کرکے واقعات کی رپورٹ شیئر کی۔ وکلاء کی ٹیم کےذریعہ جاری ویڈیو اور مواد کو امن میں خلل ڈالنے کی بنیاد بناتےہوئے پوچھ گچھ کے لیے تریپورہ پولیس نے بلایا ہے ۔
واضح رہے کہ تریپورہ میں تشدد کے بعد گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک بھر سے انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں، مسلم تنظیموں، صحافیوں اور وکلاء کی ٹیمیں تریپورہ پہنچی ہیں اور وہاں سے زمینی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا، جس کی وجہ سے دہلی اور ملک بھر میں ان کی تصویروں کو لے کر ہلچل مچی ہوئی ہے اور بی جے پی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
تریپورہ پولیس نے بدھ کو سوشل میڈیا پر فرضی اور اشتعال انگیز پوسٹس کرنے کے الزام میں 71 لوگوں کے خلاف 5 مقدمات درج کیے ہیں۔
گراؤنڈ سے آرہی تصاویر ،ویڈیوز اور شواہد نے تریپورہ پولیس کےجھوٹ کو بھی اجاگر کردیا جس میں ٹویٹ کرکے کہا گیا تھا کہ پانیساگر میں کوئی بھی مسجد کو نقصان نہیں ہوا ہے جبکہ پانیساگر میں 2 مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جس میںایک مسجد سی آر پی ایف کے ذریعہ بنائی گئی تھی ۔
تریپورہ پولیس جو ایک ہفتہ تک چلے مسلمانوں پر ایک طرفہ حملوںپر خاموش رہی، اب اچانک سرگرم ہوگئی ہے اور تشددکے اصل ملزمین پر کارروائی کرنے کے بجائے تشدد کی اصل تصاویر ملک اوردنیا کے سامنے لانےوالےصحافیوں ، وکلاء اور مختلف تنظیموں کے نمائندوںکے ممبران کو پوچھ گچھ کر کے نشانہ بنا رہی ہے ۔