لندن:افغان سپیشل فورسز کے تقریباً 200 ارکان کو طالبان کے زیر کنٹرول اپنے وطن واپس بھیجنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔
سپیشل فورسز کے ان فوجیوں کی برطانیہ نے تربیت کی تھی اور ان کی مالی اعانت بھی اسی کے ذمے تھی۔
یہ اعدادوشمار افغانستان کے سابق فوجیوں کے نیٹ ورک کے ذریعے جمع کیے گئے ہیں۔ جس وسیع پیمانے پر یہ ڈپورٹیشن ہو رہا ہے اسے برطانیہ کے ایک سابق جنرل نے ‘خیانت’ اور ‘شرمندگی’ قرار دیا ہے۔
طالبان کے حکومت میں واپس آنے کے بعد یہ فوجی پاکستان بھاگ گئے تھے لیکن اب پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ افغان مہاجرین کو نکال دے گا۔جبکہ برطانیہ کا کہنا ہے کہ اس نے ہزاروں افغانوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔
افغانستان میں 12 سال تک برطانوی فوج میں خدمات انجام دینے والے جنرل سر رچرڈ بیرنز نے بی بی سی نیوز نائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کی جانب سے ان فوجیوں کی نقل مکانی میں ناکامی ‘بے عزتی ہے، کیونکہ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یا تو ہم بحیثیت قوم دوغلے یا نااہل ہیں۔’
انھوں نے کہا کہ ‘اور یہ دونوں صورتیں ہی ناقابل قبول ہیں۔ یہ دھوکہ ہے۔ اور اس دھوکہ دہی کی قیمت وہ لوگ بھگتیں گے جنھوں نے ہمارے ساتھ خدمات انجام دیں۔ یا تو وہ مر جائیں گے یا اپنی ساری زندگی جیل میں گزاریں گے۔’
سنہ 2021 میں اس وقت کے وزیر اعظم بورس جانسن نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ان افغان سپیشل فورسز کی خدمات ‘ناقابل یقین حد تک اہم’ رہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ برطانیہ ان کے لیے ‘جہاں تک ممکن ہوگا محفوظ راستہ’ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
ان افغان کمانڈوز کے متعلق خدشات اس وقت سامنے آئے جب یہ بات کھلی کہ برطانوی حکومت نے اعلیٰ برطانوی سفارتی اور فوجی شخصیات کی جانب سے اہم افغان سویلین رہنماؤں کو پناہ دینے کے مطالبات کو بھی مسترد کر دیا جن کی جانوں کو خطرہ تھا۔
بی بی سی کو مارچ سنہ 2022 میں دفتر خارجہ کو بھیجا جانے والا ایک نجی خط ملا ہے، جس میں 32 سابق گورنروں، پراسیکیوٹرز اور اہلکاروں کے ایک گروپ کو فوری مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ان افغان حکام نے سنہ 2006 اور 2014 کے درمیان صوبہ ہلمند میں برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ کام کیا تھا۔
سپیشل فورسز کے 200 فوجیوں میں سے زیادہ تر کی طرح ان 32 اہلکاروں نے افغان ریلوکیشنز اینڈ اسسٹینس پروگرام (اے آر اے پی) کے ذریعے برطانیہ میں پناہ کے لیے درخواست دی تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو برطانیہ کی حکومت کے ملازم تھے، یا جنھوں نے ‘برطانیہ کے سرکاری محکمے کے ساتھ افغانستان میں کام کیا تھا، ان کے ساتھ تعاون کیا تھا یا پھر بہت قریب سے ان کی حمایت کی تھی۔’
بہت سے اہلکاروں اور فوجیوں کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا جبکہ دیگر کئی ایسے ہیں جو ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی فیصلے کے منتظر ہیں۔
برطانیہ کی حمایت کرنے والے عہدیداروں میں سے ایک سابق ضلعی گورنر نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلی درخواست کے 20 ماہ بعد ان کی درخواست دو ہفتے قبل مسترد کر دی گئی۔
نجی خط پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک سر رچرڈ نے کہا: ‘ہم نے ان لوگوں کے ساتھ ایک خاص عہد کیا تھا لیکن ہم اس کا تسلی بخش طور پر یا موثر طریقے سے پاس نہ رکھ سکے۔ یہاں تک کہ ہم نے ہمدردانہ طور سے بھی اسے نہیں دیکھا۔’