چھیالیس دنوں میں اسرائیلی بمباری سے بے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے ہزاروں فلسطینیوں نے جنگ بندی شروع ہوتے ہی اپنے بچے کھچے اور ٹوٹے پھوٹے گھروں کی طرف واپسی شروع کر دی۔
اسرائیلی فوج نے ان گھروں کو واپس آنے والے فلسطینیوں کو روکنے کے لیے کئی قسم کے انتباہ جاری کیے مگر گھروں کی طرف ‘ حق واپسی’ کے ساتھ جڑے ہوئے فلسطینیوں نے اپنے گھروں کو لوٹنے کو ‘فرض واپسی’ کے طور پر لے لیا ہے۔
دن بھر بچوں اور تھوڑے بہت سامان کے ساتھ نقل مکانی کرنے والے فلسطینی واپس اپنے گھروں کی طرف پیدل رواں دواں رہے۔ ان میں سے کئی کو گدھا گاڑیوں پر کئی کو کاروں اور ان کی چھتوں پر واپس گھروں کی طرف جاتے دیکھا گیا۔کئی جگہوں پرحق واپسی کو استعمال کرنے والوں کے اژدھام میں گاڑیوں کے ہارنوں کی آوازیں بھی شامل ہو گئیں۔ گویا فلسطینی ملبے کے ڈھیروں کے بیچوں بیچ اپنے گھروں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ ہارن بجاتی گاڑیاں اور ‘ حق واپسی’ کے جذبے سے سرشار فلسطینی ایک تاریخ لکھ رہے ہیں۔
جمعہ کی صبح خان یونس اور جبالیا میں بھی بمباری کا شور اور تباہی کا زور نہیں تھا۔
اس جنگ بندی کے شروع ہوتے ہی ‘حق واپسی’ پر یقین رکھنے والی حیات المعمر بھی تھیں جو دوسروں کے ساتھ مل کر جنگ بندی کا جلد سے جلد فائدہ اٹھا کر اپنے گھر کی طرف جارہی تھیں ۔ ان کے قدم تیز تھے۔وہ اپنے گھر جا رہی تھیں۔ پچاس سالہ حیات المعمر نے کہا ‘ میں اپنے گھر جارہی ہوں۔’ اسے بمباری کے دنوں میں ایک قریبی سکول میں پناہ لینا پڑی تھی۔ ہم موت ، تباہی سے بھاگ کر گئے تھے۔ اب ہم واپس آرہے ہیں۔ ‘لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ انہوں نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ کیوں ہم پر بمباری کی انتہا کر دی، سب کچھ تباہ کرنے سے انہیں کیا مل گیا؟
اب غزہ میں پانی نہیں، بجلی نہیں ، خوارک نہیں ایندھن نہیں مگر غزہ میں واپس اپنے گھروں کا رخ کرنے والوں کے پاس امید ہے۔
اسرائیلی بمباری کے ساتھ ساتھ ‘لیف لیٹس’ کی بارش ہو رہی تھی کہ سب لوگ غزہ سے نکل جائیں۔ گھر چھوڑ جائیں اور بمباری سے بچ جائیں۔ یہ بھی انتباہ اسرائیلی جہازوں سے پھینکی گئی پرچیوں کے ذریعے کیا جاتا رہا کہ فلسطینی شمالی غزہ میں واپس نہ آئیں۔ مگر واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔
لوگوں کو علم ہے کہ جنگ ابھی جاری ہے اور انہیں واپسی سے روکا بھی جارہا ہے۔ مگر وہ آرہے ہیں واپس اپنے گھروں کو۔
خالد الحبیبی نے جنگ کے شروع میں ہی شمالی غزہ میں اپنا گھر چھوڑ دیا تھا۔ وہ رفح کی طرف چلے گئے تھے، مگر کہتے ہیں’ میری خواہش ہے کہ میں اپنے گھر واپس جا سکوں اور اپنے گھر کو دیکھ سکوں۔ ‘