تحریر: ڈاکٹر منصف مرزوقی
عربی سے ترجمہ: تنویر عالم آفاقی
جنوب افریقہ نہ تو ایک عرب ریاست ہے، نہ مسلم ریاست ہے۔ اس کی سرحد کسی بھی طرف سے کسی عرب ملک سے نہیں ملتی۔ عرب ممالک ، فلسطین اور اسرائیل سے اس کے درمیان کافی بڑا جغرافیائی فاصلہ ہے۔ کسی عرب ملک سے جنوبی افریقہ کے اقتصادی یا تہذیبی روابط بھی نہیں ہیں۔ افریقہ کے بعض ممالک مثلاً سنگھال، مالی اور چاڈ کی طرح ان کےجنوبی افریقہ اور عرب ممالک کے درمیان کوئی تاریخی ربط و تعلق بھی نہیں ہے۔
اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کا اسرائیل سے کوئی براہ راست جھگڑا یا کشمکش بھی نہیں ہے۔ تازہ مسئلہ تو دور کوئی قدیم مسئلہ بھی نہیں ہے کہ آج جنوبی افریقہ کو وہی یاد آ گیا ہو اور اس نے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہو۔یہ اہم سوال ہے کہ فلسطین کے مسئلے میں جنوبی افریقہ نے فرشتوں سے بھی زیادہ فرشتگی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ اس حیران کن سوالات کا جواب اگرچہ جنوبی افریقہ کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص بآسانی معلوم کر سکتا ہے، تاہم تونس کے سابق صدر ڈاکٹر منصف مرزوقی نے اس پر ذرا کھل کر روشنی ڈالی ہے۔واضح رہے کہ جنوبی افریقہ تقریباً ۳۵۰ برس تک سفید فام عیسائیوں کا غلام رہا ہے۔ جنوبی افریقہ کا یہ عہد غلامی جنوبی افریقہ کے اصل باشندوں کے لیے تاریک ترین دور رہا ہے۔ ڈاکٹر مرزوقی اس ضمن میں اسرائیل اور جنوبی افریقہ کےدرمیان قدر مشترک تلاش کرتے ہوئے چند نکات اس شکل میں بیان کرتے ہیں:
۱۹۴۸ء وہ سال ہے جب کہ مشرق وسطی میں واقع فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کی ناجائز اور غیر قانونی ریاست قائم کی گئی تھی اور یہی وہ سال ہے جب کہ جنوبی افریقہ میں اپارتھائیڈ(Apartheid) کے نام سے نسلی تفریق کا قانون وجود میں لایا گیا۔دونوں چیزوں کا بیک وقت وجود میں آنا ایک اتفاق بھی ہوسکتا ہے، لیکن درج ذیل باتیں جو اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے درمیان قدرے مشترک کا درجہ رکھتی ہیں،محض اتفاقات کے زمرے میں نہیں ڈالی جا سکتیں۔
۱۔ فلسطین کی طرح جنوبی افریقہ میں بھی لوگوں کی زمینیں طاقت و قوت کے بل پر چھین کر دوسروں کو ان کا مالک بنا دیا گیا۔ یہ اس لیے کیا گیا تھا کہ یورپ وہاں اپنے استعمار کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا تھا۔جنوبی افریقہ میں یہ سلسلہ سولہویں صدی عیسوی سے ہی شروع ہو گیا تھا۔
۲۔ فلسطین کی طرح جنوبی افریقہ میں بھی یورپی حملوں اور کالونیاں بسانے کا جواز فراہم کرنے کے لیے مذہب پر مبنی متعصب آئیڈیالوجی کا استعمال کیا گیا۔
۳۔ فلسطین کی طرح جنوبی افریقہ کے اصل باشندوں کی زمینوں اور مکانات پر قابض ہونے کے لیے نسل کشی کی گئی اور انھیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دینے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ یہ نہیں تو بنتوستان (Bantustan)کے نام سے موسوم انھیں الگ تھلگ علاقوں میں بسایا گیا جہاں ان پر نگاہ رکھی جاتی تھی ، لیکن ان کی ضرورتوں کو نظر انداز کیا جاتا تھا۔
۴۔ فلسطین کی طرح وہاں بھی ایک طرف اصل باشندوں اور دوسری طرح پڑوسی ممالک کے ساتھ مستقل جنگ کا ماحول پیدا کیا گیا ، تاکہ ملک پر ان کا مکمل اور مستقل کنٹرول رہے۔
۵۔ فلسطین کی طرح جنوبی افریقہ کے اندر یہ ایک ایسا زہریلا ماحول تیار کیا گیا جس کی بنیاد طاقت و قوت تھی۔ طاقت ور یورپی اکڑ اور برتری کے ساتھ رہتے تھے ، جب کہ وہاں کے اصل مغلوب باشندوں کو ذلت و رسوائی کے ساتھ رکھا جاتا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ جنوبی افریقہ کی آزادی سے پہلے بالخصوص ساٹھ اور نوے کی دہائی دوران جنوبی افریقہ اور اسرائیل اپنے مزاج و طبیعت میں یکساں نظر آتے تھے اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون و اشتراک انتہائی درجے کا تھا۔۹۰ کی دہائی میں نیلسن منڈیلا اور ڈی کلارک کے درمیان اپارتھیڈ نظام کو ختم کرنے پر دستخط ہوئے تو اسرائیل اور جنوبی افریقہ کی راہیں اچانک ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہو گئیں۔ اب یہ حال تھا کہ اسرائیل اور اس کی انتہا پسند سیاست کے مدعی جنوبی افریقہ کو کسی سیاسی حل تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے لگے۔
ڈاکٹر منصف مرزوقی نے بصارت و بصیرت کی نگاہوں سے جنوبی افریقہ کے رجل حکیم نیلسن منڈیلا اور اسرائیل کے خطرناک احمقوں نیتنایاہوں اور ابن غفیر کے درمیان فرق کو محسوس کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ نیلسن منڈیلا وہ شخص ہے جس نے افریقہ اور جنوبی افریقہ کو خون کے دریا میں بہنے سے بچا لیا، جب کہ یہ دونوں احمق ترین انسانوں نے اپنی نسل کشی کی سیاست کے ذریعے اپنے ہی ملک کو بین الاقوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔
جنوبی افریقہ اپنے معاملے میں تو یورپ کو بین الاقوامی عدالت میں نہیں گھسیٹ سکا، لیکن آج وہ فلسطین کے نام پر اسرائیل کو کٹہرے میں لے آیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی افریقہ وہ ملک ہے جو انتہائی سخت ترین آزمائشوں کو پار کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ آج وہ اپنے نام پر نہیں بلکہ ان اقدار کے نام پر عدالت پہنچا ہے جنھوں نے اسے سخت ترین آزمائشوں سے گزرجانے کا حوصلہ دیاہے۔