نئی دہلی :(ایجنسی)
پچھلے تین سالوں میں کانگریس میں ناراض لیڈروں کا ایک گروپ بن گیا ہے۔ اس گروپ کو صحافت کی دنیا میں G-23 کہہ کر پکارا گیا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ 23 رہنماؤں کا ایک گروپ ہے۔ اس کے لیڈر جب -جب کانگریس کسی ریاست میں الیکشن ہارتی ہے تو اس دوران سرگرم ہو کر پارٹی اعلیٰ قیادت کے خلاف میڈیا میں آکر آواز بلند کرتے ہیں، لیکن وہ گاندھی پریوار کے سامنے اپنی باتوں کو کہنے سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
یہ وہی G-23 گروپ ہے جس نے سال 2020 میں کانگریس صدر سونیا گاندھی کو ایک خط لکھ کر پارٹی قیادت کے کام کاج پر سنگین سوالات اٹھائے تھے۔ اس گروپ کے سرکردہ لیڈروں میں غلام نبی آزاد، آنند شرما، کپل سبل، منیش تیواری، بھوپندر سنگھ ہوڈا، ششی تھرور وغیرہ شامل ہیں۔
پانچ ریاستوں میں کانگریس کی عبرتناک شکست کے بعد یہ گروپ ایک بار پھر آواز اٹھانے لگا ہے۔ اس گروپ کے رہنماؤں نے میڈیا میں کچھ بیانات بھی جاری کیے ہیں اور کہا ہے کہ وہ پارٹی کو اس طرح ڈوبتا نہیں دیکھ سکتے۔ ’دی انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق، اس گروپ کے کچھ لیڈروں نے کانگریس کی شکست کے بعد دہلی میں غلام نبی آزاد کی رہائش گاہ پر منعقدہ میٹنگ میں کہا کہ انہیں راہل گاندھی کی قیادت پر بھروسہ نہیں ہے۔
لیکن جب کانگریس صدر سونیا گاندھی نے کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ بلائی تو یہ لیڈر اس میں اپنی بات رکھنے سے پیچھے ہٹ گئے۔
اب سوال یہ ہے کہ G-23 کے لیڈران گاندھی پریوار کو کھل کر اپنا نقطہ نظر کیوں نہیں بتاتے؟ ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ گاندھی پریوارنے کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ سے پہلے استعفیٰ دینے کی بات کہی۔ اس میں سونیا گاندھی، راہل گاندھی وہ پرینکا گاندھی شامل رہے ۔
ایسے میں اس گروپ کے لیڈروں پر سوال کھڑے ہوتے ہیں ۔ اگر وہ یقینی طور پر پارٹی کی بھلائی چاہتے ہیں تو وہ میڈیا کے بجائے کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ یا پارٹی کے کسی اور فورم میں اپنا مطالبہ مضبوطی سے رکھیں اور بتائیں کہ کانگریس کو کیسے زندہ کیا جاسکتا ہے۔
لیکن گزشتہ 3 سالوں میں جب اتنی ریاستوں میں انتخابات ہوئے، تب بھی یہ لیڈر کانگریس کو جیتنے یا اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی سمت میں زیادہ کچھ کرتے نظر نہیں آئے۔ لیکن کانگریس کی شکست کے بعد یہ قائدین آواز اٹھاتے ہیں اور پارٹی کی حالت زار کے بارے میں میڈیا میں بیانات جاری کرتے ہیں۔
یہ لیڈر اپنے آپ کو کانگریس کے کٹر حامی بھی بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ پارٹی کے خیر خواہ ہیں لیکن میڈیا میں ان کی طرف سے جو بیان بازی ہو رہی ہے اسے دیکھ کر ایسا نہیں لگتا۔