نئی دہلی :(ایجنسی)
کنور ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید سی ڈی ایس بپن راوت کے آخری درشن کے لیے جب کسان لیڈر راکیش ٹکیت پہنچے تو وہاں موجود چند لوگوں نے ان کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگائے۔ نعرے لگانے والے یہ لوگ چند ہی تھے لیکن ان کے من میں ٹکیت کے خلاف زہر کس نے بھرا، یہ ایک بڑا سوال ہے۔
آئیے اس کو سمجھنے کے لیے تھوڑا سا تجزیہ کرتے ہیں۔ 2014 میں جب سے مرکز میں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، مودی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے ہر شخص کو ملک دشمن کہنے کی مہم سوشل میڈیا پر شروع کی گئی، جو آج بھی جاری ہے۔
اس میں شاہین باغ کے ساتھ ساتھ کسانوں کی تحریک میں شامل لوگوں، اپوزیشن لیڈروں، حکومت کے خلاف بولنے والے تمام صحافی، سماجی مسائل پر آواز اٹھانے والے لوگوں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر ٹی وی چینلز تک ان کو ملک کا غدار بتانے کے لیے ایک شیطانی حلقہ بنایا گیا۔
جب کسانوں کی تحریک مودی حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکی تھی، تب کسانوں پر خالصتانی، بیرون ملک سے پیسہ لے کر ملک کو کمزور کرنے کے الزامات خود بی جے پی کے اعلیٰ لیڈروں نے کھلے عام لگائے تھے۔ سوشل میڈیا پر فرضی دکان چلانے والوں نے اس طرح معاشرے کے ایک طبقے کو اپنے ساتھ لے لیا۔ اور جو لوگ نفرت پر مبنی پروپیگنڈہ نظام کی گرفت میں تھے انہوں نے جنرل راوت کی الوداعی کے حساس موقع پر وہ زہر اگل دیا۔
کیونکہ دائیں بازو کی لائن ایک ہی ہے کہ جو بھی مودی حکومت کے خلاف بولے، اسے ملک دشمن کہنا شروع کر دیں۔
یقیناً یہ اپنے مخالفین کو ولن ثابت کرنے کی ایک خطرناک چال ہے لیکن کسان تحریک کے دوران جمہوری قوتوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جب عوام اکٹھے ہو جاتے ہیں تو پھر ایسے نفرت انگیز نظام کو چلانے والوں کو میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے۔ دائیں بازو کی ان کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر ایک مضبوط اپوزیشن کھڑی کر دی گئی ہے جو ان کی کھوکھلی باتیں اور زہر اگلنے والی مشین کو بے نقاب کر رہی ہے۔