تحریر:قاسم سید
جمعیۃ علماء ہند اپنے جواں سال ،متحرک فعال صدرمولانا محمود مدنی کی قیادت میں جدید تنظیمی تقاضوں اور بدلتے حالات سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کررہی ہے ،بھوپال کے حالیہ اجلاس سے اس کے اشارے ملتے ہیں ۔اس میں جو فیصلے لیے گیے ہیں وہ انقلابی تبدیلیوں کی ابتدا ہو سکتے ہیں ،مثلا خواتین میں جمعیت کا تعارف،اثرونفوذکی راہیں تلاش کرنا،جمعیت کے پھیلاؤ کے لیے زونوں کی تشکیل ،ان کے ذمہ دار مقرر کرنا اور اس کے علاوہ جمعیت کے اندر جمہوری نظام کو مستحکم کرنا ۔
کیونکہ جمعیت پر موروثی نظام کے تسلط کا الزام اس کے نقادوں کی طرف سے لگایا جاتا رہا ہے ۔مولانا منصورپوری کے انتقال کے بعد جمعیت کے تنظیمی ڈھانچے میں مولانا حکیم الدین قاسمی کی جنرل سکریٹری کے طورپر تقرری اس الزام کا طاقتور جواب تھا ،یفینا یہ غیر معمولی فیصلہ تھا ،مولانا محمود مدنی آزادی کے بعد پیدا ہونے والی نسل کے ترجمان ہیں ظاہر ہے انہیں اپنے بزرگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے،چلنا چاہیےسوال یہ ہے کہکیا وہ روایتی طرز کی پاسداری اور انقلابی فیصلوں کے درمیان توازن اور ہم آہنگی میں کامیاب ہوں گے یہ ان کا بڑا امتحان ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں رسک لینے کی جرات ہے ۔اپنے بڑوں کا دباؤ کتنا قبول کرتے ہیں اور نئ نسل کے کارکنوں کی امنگوں اور جذبوں کو کتنی دھار دیتے ہیں یہ آنے والا وقت بتاۓ گا امید تو یہی ہے کہ محمود مدنی بڑھتے قدموں میں مصلحتوں کی زنجیروں کے اسیر نہیں ہوں گے ۔ نیےخون کی حوصلہ افزائی کریں گے اور نوجوانوں کے ملک میں جمعیت کی صورت گری میں ان کی نمائندگی پر خاطر خواہ توجہ دیں گے۔ اس میں کوی شک نہیں کہ جمعیت کانگریس کی طرح پورے ملک میں اپنی موجودگی کا بھرپور احساس کراتی ہے گراس روٹ لیول کی سب سے پرانی اور سب سے بڑی مسلم تنظیم ہے مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ رفاہی کاموں کے علاوہ اپنے مضبوط کیڈر کا دیگر میدانوں صحیح استعمال نہیں کیا۔کانفرنسیں کرکے بھیڑ جمع کی جن کا قومی سطح پر بظاہراثر نظر نہیں آیا۔
ہوسکتا ہے یہ بات جمعیت کے حلقوں کو کڑوی،ناگوار لگے اور پسند نہ آۓ ،بھنویں تن جائیں، بغیر کسی معذرت تصویر کے دونوں رخ دیکھنا اور دکھانا ہمارا کام ہے ، تبھی اصلاح کے امکانات کے سورج صحن میں اترتے ہیں ۔ جمعیت اپنے وسایل اور ہر طرح کی افرادی قوت کو بروۓ کار لاۓ تو اس میں پانسہ پلٹنے کی صلاحیت ہے۔ لگتا تو یہی ہے کہ محمود مدنی نئ زمینوں اور نیے آسمانوں کی تلاش پر یقین ہی نہیں رکھتے بلکہ ان کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت بھی رکھتے ہیں ویسے بھی جمعیت میں اعلیٰ قیادت سے اختلاف اورچیلنج کرنے کی روایت شاذونادر ہے عقیدت و اطاعت کا جذبہ ہر جذبے پر حاوی ہے کسی جماعت کے لیے یہ ضروری بھی ہوتا ہے
عقیدت واطاعت غیرمشروط وفاداری کو جنم دیتی ہے جس سے شورای نظام ہونے کے باوجود یک رخا ہوجاتا ہے یک رخا نظام سب سے پہلے جمہوری روح کا گلا گھونٹتا ہے ،محمود مدنی اس فلسفہ سے ضرور واقف ہوں گے۔ وہ ذہین ہیں کھلےدل اور کھلے دماغ کے مالک ہیں اور دوسروں کو سننے کی برداشت کا مادہ یقینی طور پر رکھتے ہوں گے انٹرویو وغیرہ کے دوران سخت سوالوں پر بھی چہرے پر مسکراہٹ ضبط کمال کا پتہ دیتی ہے مقبول عام قیادت کے لیے اس جوہر کا ہونا لازمی ہے۔ جہاں تک سیاسی معاملات کا تعلق ہے محمود مدنی کو مسلمانوں کا قومی سطح پر اعتماد حاصل کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا ۔وہ سیاسی محاذپر اپنے بیانات و ان کی تاویلات کےسبب مطلوبہ اعتماد کے معیار پر کھرے نہیں اترسکے ہیں عام خیال یہ ہے کہ ملک وملت کے درمیان بیلنس کی کوشش کے سبب ایسا ہوجاتا ہےاس تصور اور پرسیپشن کو بدلنے کے لیے انہیں خود ہی سوچنا ہوگا اگر وہ ایسا کرگذرے توبلاشبہ ملک کے سب سے بڑے مسلم لیڈر بن سکتے ہیں ۔
کیونکہ تنظیمی کیڈر کے معاملہ میں کوی مسلم تنظیم جمعیت کے سامنے نہیں ٹھہرتی (دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی ہے اس کا مضبوط کیڈر ہے )بہرحال ایک بڑا لیڈر بننے اور جمعیت کے نیے خدوخال تیار کرنے کے لیے محمود مدنی کے پاس بہت وقت ہیے ۔ان سب کے لیے انہیں اپنے میڈیا شعبہ کو مضبوط اکائ بنانا ہوگاہر طرح کی سہولتوں سے لیس،ہر تقاضے کو پورا کرنے کی اہلیت کا مالک اور قدرے آزاداس لیے کہ موجودہ دور میں آدھی لڑائ میڈیا کے ذریعہ جیتی جاتی ہے ہماری اکثروبیشتر تنظیمیں پریس ریلیز چھپ جانا ہی کامیابی و معراج سمجھتی ہیں بھلے ہی پیڈ نیوزکی شکل میں ہوں۔
اس سوچ سے باہر نکلنا ہوگا آخری بات اگر جمعیت خود کو کسی خاص مسلک کی ترجمان ومحافظ کے طور پر ہی شناخت رکھنا چاہتی ہے تو یہ اس کاحق ہےپھر تو کچھ کہنا نہیں اور اگر وہ اپنی سرحدوں کو وسیع کرنا چاہتی ہے تو مسلکی طنابوں کو ڈھیلاکرنا ہوگا اس ملک میں دیگر مسلم طبقات بھی رہتے ہیں ۔اس کا مطلب عقیدے سے سمجھوتہ کرنا نہیں بلکہ دیگر مسالک کے ساتھ اپنی حدود میں روابط کو مستحکم کرنا۔محمود مدنی بھوپال کی تقریر میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دیا کہ ان کے بعد جمعیت ہی ملت کی آبرو ہے ۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کاامتیاز یہ ہے کہ وہ مرجع خلائق ہیں ہر مسلک کے لوگ انہیں اپنا امام سمجھتے ہیں۔یہ حیثیت ہندستانی تاریخ میں اور کسی کو حاصل نہیں جمعیت کو پوری ملت ساتھ لے کرچلنی ہوگی اور یہ کام روایت شکن محمود مدنی ہی کرسکتے ہیں یہ امید کرنا کفر نہیں ؟تو کیا محمود مدنی ایسا کرسکیں گے !کیا وہ تیار ہیں؟