زینب سکندر
سچائی سے زیادہ آزاد کچھ نہیںہوتا اور اس وقت ہندوستان کی سچائی یہ ہے کہ جبکوئی اقلیت برادری اپنے مذہب کی پیروی کرتی ہے ، خاص طور پر کووڈ کے دور میں تواسے بدنیتی پر مبنی سمجھا جاتا ہے۔
ہندوستان میں کورونا وائرس کی وباء کے آغاز کے وقت گزشتہ سال مارچ میں مسلمانوں کو جہادی اور سپر اسپریڈر قراردیاگیا تھا ،کیونکہ وہ دہلی کی حضرت نظام الدین میں مرکز تبلیغی جماعت میں ایک مذہبی تقریب کے لئے جمع ہوئے تھے ، جس میں تقریباً 3000 غیر ملکی شہری بھی شامل تھے ، جنہیں حکومت ہند نے ویزا اور ضروری اجازت دی تھی۔
اس کی ایک اور مثال کسانوں کے احتجاجی مظاہرے کے تحت رواں سال 26 جنوری کو لال قلعہ پر ‘’نشان صاحب‘ کا پرچم لہرائے جانے کی ہے۔حالانکہ مظاہرین کے ایک گروپ کی جانب سے یہ عمل غیر قانونی تھا ، لیکن انھیں ’خالصتانی دہشت گرد‘ قرار دینے میں کوئی تاخیر نہیں کی گئی جو مبینہ طور پر ہندوستان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ سکھوں کا اپنا الگ ملک بناسکیں۔
اس سے عیسائی بھی اچھوتے نہیں ہیں جنھیں مسلسل حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جنھیں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر غریب ہندوؤں اور قبائلیوں کو مشنری کام کے ذریعے عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اور اب وبائی مرض کی دوسری لہر کے دوران جب متاثرین کی تعداد مہنگائی سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہم 11 سال بعد ہونے والے مہا کمبھ کا پورے تام جھام کے ساتھ منعقد ہوئے پروگرام کے گواہ ہے۔
مہاکمبھ آخری بار 2010 میں منعقد ہوا تھا اور اگر آپ بہت پر امید ہیں تو اسے موجود ہ مایوس کن اور تاریکیمستقبل صورت حال میں ایک خوشگوار تبدیلی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جو پچھلے ایک سال سے دنیا کے سامنے موجود ہے۔ عقیدت مند اعتماد کے ساتھ جمع ہیں، لیکن اگر آپ ایک پریکٹیکل شخص ہیں ، تو آپ کو خطرے کی ایک لاکھ پینتالیس ہزار تین سو چوراسی لال جھنڈیاں نظر آئیں گی جو جمعہ کو درج کے گئے ایک دن کے سب سے زیادہ کووڈ معاملے کی ہیںاور یہ تعداد جلد ہی نیچے بھی آتی نہیں نظر آرہی ہے ۔ ہم دوسری لہر کے بیچ و بیچ میں ہیں۔
ویسے یہ صرف اعداد کی بات نہیں ہے۔ یہ اقلیتوں کے خلاف ایک بہت بڑی تعصب کی بات ہے ، جسے میڈیا رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ اس طرح کی مذہبی تقاریب کو حکومت کی اجازت کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ جمعہ کے روز عہدیداروں نے متھرا کے بانکے بہاری مندر میں عقیدت مندوں کے ایک بڑے ہجوم کو جمع ہونے کی اجازت دی ، جہاں کووڈ کے ہدایات پر بالکل بھی عمل نہیں کیا گیا۔ جب کہ متھرا ضلع کے سی ایم او اے این آئی سے اصرار کرتے رہے کہ تمام مندروں اور اسپتالوں کو کووڈ پروٹوکول کی پیروی کرنے کے لئے کہا گیا ہے ، مندر میں ریکارڈ شدہ ویڈیوز ایک الگ کہانی بیان کررہی ہیں۔
تبلیغی جماعت کے واقعہ کے دوران میڈیا کے افراد نے گلا پھاڑ کر چلانے والے میڈیا والے کی آواز اب کھوگئی دیکھتی ہے۔ ایسا لگتا ہے صرف مسلمان ہی کورونا وائرس پھیلا سکتے ہیں اور دوسری مذہبی تقاریب پروٹوکولمیں بھاری نرمی کے باوجود کووڈ آزاد ہوتے ہیں۔
سچ کہاجائے تو مسئلہ مذہبی تقاریبکا نہیں ہے۔ لوگ وبا کے موجودہ دور اور اس کے خطرات سے بخوبی واقف ہیں۔توایہ ان کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔ اصل مسئلہ سزا یافتہ کارروائی کے لیے اکثریت اور اقلیت طبقوں کے بیچ امتیاز کا ہے۔ جہاں تبلیغی جماعت کے ممبروں پر آئی پی سی، وبائی امراض ایکٹ ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ اور یہاں تک کہ این ایس اے کے تحت معاملے عائد کیے گئے تھے، وہ بھی ایسے وقت میں جب باہر سے آنے والے وائرس کے بارے میں بھارت بہت کم جانتا تھا اور تمام مذہبی مقامات عام طور پر چل رہے تھے لیکن اب ، 1.7 لاکھ اموات کے بعددوسرے برادی کے اسی طرح کے مذہبی تقریب کسی بھی طرح کی کارروائی سے آزاد نظر آتے ہیں ۔
مساجد میں کووڈ ، مندروں میں آستھا
مسئلہ کھلے عام کئے جارہے متعصبانہ سلوک کو میڈیا کی مقبولیت کی بھی ہے۔ کسی مسجد میں بھیڑ کے جمع ہونے کی رپورٹنگ کسی مندر میں ہوئے جماوڑے کی رپورٹنگ سے بہت الگ ہوتی ہے، حالانکہ دونوں ہی جگہ لوگوں کا ہجوم جمع ہونا غلط ہے، لیکن ایک کوجہاں عقیدے سے جوڑ کر دکھایا جاتا ہے، وہیں دوسرے کو دہشت گردی سے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، لیکن ہمیں اس کو اجاگر کرنے کا کوئی موقع نہیں کھونا چاہئے۔
مسلمانوں کے بے فائدہ ہونے کا جنونی خیال کو ہمارے ٹی وی اسکرینوں پر کھل کر دکھایا جاتا ہے۔ یو پی ایس سی کے مسلم امیدواروں کو جہادی کہا جاتا ہے ، جو جہاد کرنے کے لئے بیوروکریسی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی جنونیت پھیلانے والوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ جب فرانس میں سیموئیل پیٹی نامی اسکول کے ٹیچرکو ایک شخص نے طالب علموں کو پیغمبر اسلامؐ کے کارٹون دکھانے کے نام پر مارڈالاتو زیادہ تر مسلمانوں نے کھل کر اس اس وحشیانہ فعل کی مذمت کی اور ساتھ ہی اس ناروا سلوک پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ میں نے بھی کارٹونوں کے بارے میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن اس کے لئے ہمیں انتہا پسند کہا گیا، جس ملک میں ’پدماوتی‘ جیسی فلم میں ایک مہارانی کیعکاسیجسے کچھ لوگ دیوی سمجھتے ہیں ، لوگوں کو تشدد کا سہارا لینے پر مجبور کرتے ہیں۔در حقیقت سچائی سے زیادہ آزاد کچھ نہیں ہے۔ اور سچائی یہ ہے کہ ہندوستان میں فرقہ واریت کی گہرائیوں سے گرفت ہے۔ اس سے ان لوگوں کے الجھن کا خاتمہ ہونا چاہئے جو اب تک فرقہ واریت کو محض ایک تنگ نظری والی ذہنیت سمجھتے ہیں ، جس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے۔ درحقیقت ، اب یہ ایک آل انڈیا شہری ذہنیت بن گیا ہے ، جو ہمارے ملک کی روح کو کھوکھلا کررہا ہے۔
(بشکریہ دی پرنٹ)