نئی دہلی :(ایجنسی)
آر ایس ایس کے سرکاریواہ (جنرل سکریٹری) دتاتریہ ہوسبولے نے ایک کتاب ’دھیا یاترا‘ کی رسم اجرا کے موقع پر اے بی وی پی کے ایک اجتماع سے خطاب کیا۔ دتاتریہ نے کہا کہ طلباء تنظیموں کو اسٹیبلشمنٹ مخالف سمجھا جاتا ہے، لیکن انہیں تقسیم کی آواز نہیں اٹھانی چاہئے اور ملک کی ثقافت کے بارے میں نفرت نہیں پھیلانی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ ہر طلبہ تنظیم اقتدار مخالف ہو گی ، اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے ۔ بتادیں کہ اس پروگرام میں سابق چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑہ کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔
دتاتریہ ہوسبولے نے کہاکہ ہر نسل نے اقتدار کے خلاف آواز اٹھائی ہے لیکن ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا مقصد معاشرے میں نفرت پھیلانا نہیں ہونا چاہیے۔
ہوسبولے نے کہا کہ ’اے بی وی پی کے کارکنوں نے کیرالہ، آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں اپنی جانیں قربان کی ہیں تاکہ یونیورسٹیوں میں ان لوگوں کو روکا جا سکے جو بندوق کی نال سے انقلاب لانا چاہتے ہیں۔‘
طلباء کے احتجاج نے دنیا میں بہت قربانی دی ہے ، کئی ممالک کی جد وجہد آزادی میں، سماجی اور سیاسی تبدیلیوں میں، یہاں تک کہ ماحولیات، سماجی مساوات، انسانی حقوق جیسے مسائل پر بھی بہت حصہ ڈالا ہے، لیکن آج ملک کو تقسیم کرنے والی کچھ قوتیں آواز اٹھا رہی ہیں۔ وہ اس معاشرے اور اس کے کلچر کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ملک کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
ہوسبولے نے مزید کہا، ‘اے بی وی پی نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے زمینی سطح پر کام کیا ہے۔ 35 لاکھ سے زیادہ ممبران کا ہونا ایک کارنامہ ہے، لیکن شراکت نہیں۔ اس کا تعاون ملند کامبلے جیسے لوگوں کو پیدا کرنے میں ہے جنہوں نے دلت چیمبر آف کامرس شروع کیا تاکہ دلت برادری کے لوگ نہ صرف ملازمتیں تلاش کریں بلکہ صنعتکار بنیں۔
ایک جمہوری ملک میں، اینٹی انکمبینسی وہ آواز ہے جو تنقید کی آوازوں کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے ذریعے معاشرے کے غریب، پسماندہ اور محروم طبقے کے لوگ اپنی آواز اٹھا سکتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ یا موجودہ طاقت مختلف قسم کی ہو سکتی ہے، جیسے کہ کسی ملک کی حکومت اور پریوار میں باپ۔