تجزیہ :وجے ترویدی
کیا راہل گاندھی کا رائے بریلی سے مقابلہ کرنا ایک ماسٹر اسٹروک ہے یا وہ بی جے پی کے جال میں پھنس گئے ہیں؟ کیاانہوں نے خود بی جے پی کو الجھا دیا ہے؟ کہا جا رہا تھا کہ بی جے پی امیٹھی میں راہل کو ابھیمنیو کی طرح انتخابی مہابھارت میں پھنسانا چاہتی ہے تاکہ وہ امیٹھی تک الجھے رہیں۔ سارا الیکشن راہل بمقابلہ اسمرتی ایرانی ہونا چاہئے اور مودی کو باقی میدان کھل کر کھیلنے کے لئے چھوڑ دینا چاہئے۔ بی جے پی چاہتی تھی کہ راہل امیٹھی سے اور پرینکا رائے بریلی سے الیکشن لڑیں تاکہ مودی کو اقربا پروری کے نئے الزامات لگانے کا موقع ملے۔ ماں سونیا گاندھی راجستھان سے راجیہ سبھا میں ہیں اور بیٹا اور بیٹی لوک سبھا میں ۔ پارلیمنٹ میں ایک ہی خاندان کے تین افراد۔ کانگریس اس کھیل کو سمجھ رہی تھی۔
پرینکا گاندھی الیکشن لڑنے کے لیے اپنا ذہن نہیں بنا پائی تھیں۔ پرینکا گاندھی کو لگتا ہے کہ ملک بھر میں انڈیا الائنس کے لیے مہم چلا کر بی جے پی کے خلاف ماحول بنانا اور مودی کے الزامات کا جواب دینا کسی ایک لوک سبھا سیٹ سے جڑے رہنے سے زیادہ اہم ہے۔ یہ واضح ہے کہ راہل گاندھی بھی اس آسان طریقے سے حملہ کرنے کے قابل نہیں ہیں جس میں پرینکا گاندھی مودی کے جھوٹ کو بے نقاب کر رہی ہیں اور خواتین کا جنسی استحصال کرنے والوں کے دفاع کے لیے مودی کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہیں۔ مودی جی چاہ کر بھی پرینکا گاندھی پر ذاتی حملے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
دوسری طرف راہول گاندھی بھی بی جے پی کے کھیل کو سمجھ رہے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر راہول گاندھی رائے بریلی سے الیکشن لڑنے پر رضامند کیوں ہوئے؟ ذرائع کی مانیں تو راہل گاندھی وایناڈ سیٹ نہیں چھوڑنا چاہتے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ویاناڈ سے پورے کیرالہ کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ 2019 میں جب راہل گاندھی نے وایناڈ سے الیکشن لڑا تو پورے کیرالہ میں اس کا فائدہ کانگریس کو ملا۔ اس نے وہاں کی 20 لوک سبھا سیٹوں میں سے 19 پر کامیابی حاصل کی۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ دہلی کے تخت کا راستہ اتر پردیش سے ہو کر جاتا ہے۔
نریندر مودی نے خود 2014 میں وڈودرا اور وارانسی سے الیکشن لڑا تھا۔ جیتنے کے بعد وڈودرا چھوڑ دیا۔ تو کیا رائے بریلی جیتنے کے بعد راہل گاندھی ویاناڈ چھوڑ دیں گے؟ ممکن ہے کہ ایسا کرنے سے کانگریس کو کیرالہ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کچھ خمیازہ بھگتنا پڑے لیکن فی الحال راہل گاندھی کی فکر 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو 100 سے آگے لے جانے کی ہے۔
تو کیا یہ سوچ رہے ہیں کہ راہل گاندھی نے رائے بریلی سے الیکشن لڑنا قبول کیا؟ اگر یہی کرنا تھا تو کیا امیٹھی اتنا برا تھا؟ اسمرتی ایرانی نے گزشتہ انتخابات میں راہل کو تقریباً 55 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔ عام طور پر ایک لوک سبھا میں بیس لاکھ ووٹ ہوتے ہیں۔ گیارہ بارہ لاکھ ووٹ پڑے۔ اس کے سامنے 55 ہزار ووٹوں کی جیت زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ مودی کہہ رہے ہیں کہ راہل گاندھی وایناڈ سے ہار رہے ہیں اس لیے وہ بھاگ کر رائے بریلی چلے گئے۔اسی بہانے پی ایم مودی راہل کے ‘ڈرو مت’ کے نعرے پر بھی تنقید کر رہے ہیں لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مودی اتنے نڈر ہیں اور اسمرتی ایرانی اتنی بہادر ہیں تو بی جے پی نے رائے بریلی سے ایرانی کو کیوں نہیں اتارا؟
رائے بریلی سے ایرانی کا پرچہ نامزدگی داخل کیا جا سکتا تھا۔ پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ مودی اور امیت شاہ ورون گاندھی کو رائے بریلی سے الیکشن لڑنے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ لیکن الیکشن لڑنے سے انکار کر کے کیا ورون نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہی خراب نہیں کر دیا؟
کہا جا رہا ہے کہ رائے بریلی امیٹھی سے زیادہ محفوظ سیٹ ہے۔ راہل گاندھی کو یہاں الیکشن جیتنے کے لیے زیادہ پسینہ بہانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کاغذات نامزدگی داخل کرنا ہے اور پھر ملک بھر میں انتخابی مہم کے لیے نکلنا ہے۔ ووٹنگ سے پہلے دو دن رائے بریلی میں گزارنے پڑتے ہیں جیسا کہ مودی خود وارانسی میں کرتے رہے ہیں۔ اگر وہ امیٹھی سے الیکشن لڑتے تو ظاہر ہے کہ انہیں وہاں زیادہ وقت گزارنا پڑتا۔۔ راہل نے امیٹھی سے دور رہ کر انتخابی کیچڑ سے خود کو بچا لیا ہے۔
یہ یقینی ہے کہ راہل کا انتخاب لڑنے سے قریب کی ایک درجن سے زیادہ سیٹوں پر اثر پڑے گا۔ اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی کو بھی اس کا فائدہ ہوگا۔ دونوں ایک ساتھ انتخابی جلسے کرنے جا رہے ہیں۔ اب چونکہ دونوں الیکشن لڑ رہے ہیں (قنوج سے اکھلیش) اس لیے دونوں کے کارکنوں میں جوش و خروش رہے گا اور ووٹ ٹرانسفر بھی آسانی سے ہو جائے گا۔
راہل گاندھی کے رائے بریلی سے الیکشن لڑنے پر مودی نے جس طرح سے ردعمل ظاہر کیا ہے، اس سے صاف ہے کہ کانگریس نے مودی کے گیم پلان میں گڑبڑ کر دی ہے۔ بھلے ہی مودی کہہ رہے ہوں کہ ‘راہل گاندھی امیٹھی سے ڈر گئے، بھاگ گئے’، لیکن اسمرتی ایرانی نے شاید راحت کی سانس لی ہو گی۔(بشکریہ ستیہ ہندی-یہ تجزیہ نگار کے ذاتی خیالات ہیں)