سنبھل(سعد نعمانی) سنبھل ایک تاریخ ساز خطہ ہے کسی زمانے میں مغل بادشاہوں کا نورِ نظر رہا لیکن ہندوستان پربرطانوی راج کے فوراً بعد سے ہی اس شہر کو نظر لگ گئی اورسنبھل ہر محاذ پر پچھڑتا چلا گیا۔ ملک کی آزادی میں بھی یہاں کے جیالوں نے اہم رول ادا کیا اور یہاں کی علمی و ادبی شخصیات نے بھی ملک و بیرونِ ملک سنبھل کا خوب نام روشن کیا مگر یہ سب کردار بھی آج تک سنبھل کو اس کا جائز حق نہ دلاسکے۔
آزادی کے بعد سنبھل کو امروہہ کی پارلیمانی سیٹ سے جوڑ دیا گیا تھا اور1952میں جب ملک میں پہلے عام انتخابات ہوئے تو اس حلقہ سے جمعیۃ علماء کے رہنما و ملی قائد مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور 1957میں بھی مولانا ہی یہاں سے پارلیمنٹ پہونچے مگر1962 میں مولانا کے انتقال کے بعد جو ضمنی الیکشن ہوئے اس میں آزاد امیدوار اچاریہ کرپلانی کی جیت نے سب کو چونکا دیا تھا۔1971-1967 میں مولانا اسحاق سنبھلی ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر پارلیمنٹ پہونچے۔1975میں جب ملک میں انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی عمل میں آئی تو سنبھل کو امروہہ سے نکال کر الگ پارلیمانی سیٹ بنادیا گیا۔ نئی حد بندی کے بعد1977میں یہاں سے جنتا پارٹی لہر کی میں محترمہ شانتی دیوی یادو نے کامیابی حاصل کی۔1980میں برجیندر پال سنگھ یادواو1984میں شانتی دیوی یادو نے کانگریس کے لئے یہ سیٹ بچائی لیکن اس کے بعد پھر کبھی کانگریس کو یہاں سے کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔1989کی جنتادل کی لہر تھی اور اس لہرنے ڈاکٹر ایس پی سنگھ یادو کو پہلی بار پارلیمنٹ بھیجا،1991میں بھی ایس پی سنگھ یادو ہی جنتادل سے کامیاب ہوئے مگر1996میں ڈی پی یادو بہوجن سماج پارٹی کو اس سیٹ پر پہلی بارجیت دلانے والے امیدوار بنے۔
-1999-1998میں سماج وادی پارٹی کے بانی ملائم سنگھ یادویہاں سے کامیاب ہوئے۔2004میں ملائم سنگھ کے بھائی پروفیسررام گوپال یادو نے اس سیٹ پر سماج وادی کی جیت کے سلسلہ کو برقرار رکھا اس طرح ایک لمبے عرصہ تک یادو برادری کے امیدوار ہی سنبھل سیٹ پر قبضہ جمائے رہے مگر2009میں ایک بار پھر نئی حد بندی عمل میں آئی اور کچھ مسلم علاقہ اس سیٹ پر واپس آگئے جس کی وجہ سے مسلم لیڈران کے لئے یہ سیٹ اہم بن گئی۔ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر یہاں سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن سماج وادی پارٹی کا ٹکٹ نہ ملنے پر ڈاکٹر برق بہوجن سماج پارٹی میں شامل ہوگئے اور سنبھل سے لوک سبھا انتخاب کے امیدوار بنائے گئے۔ انھوں نے نہ صرف الیکشن میں کامیابی حاصل کی بلکہ اس سیٹ پر یادو برادری کے چلے آرہے قبضے کا بھی خاتمہ کردیا۔لیکن2014 کے الیکشن میں بہت نزدیک کے فرق سے ڈاکٹر برق بی جے پی امیدوار ستیہ پال سینی ہار گئے۔2019کے پارلیمانی الیکشن میں سنبھل سیٹ سے ڈاکٹر برق سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی گٹھ بندھن کے امیدوار بنائے گئے جس میں انھوں نے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔
2024کے اس الیکشن میں بھی سماج وادی پارٹی نے اپنی پہلی فہرست میں ڈاکٹر برق کو ہی امیدوار بنایا تھا مگر27/ فروری کو ان کا انتقال ہوگیا جس کے بعد سماج وادی پارٹی نے ان کے پوتے ضیا الرحمن برق کو امیدوار بنایا ہے۔نامزدگیوں کے بعد کل13/ امیدوار میدان میں ہیں جس میں سماج وادی پارٹی سے ضیا الرحمن برق، بی جے پی سے پرمیشور لال سینی، بی ایس پی سے صولت علی، پیس پارٹی سے راشد خاں، کے علاوہ بقیہ آزاد میدوار کی حیثیت سے میدان میں ہیں۔ اس بار اس پارلیمانی حلقہ میں تقریباً 19/ لاکھ ووٹ ہیں سنبھل اسمبلی حلقہ میں 372483,کندرکی391117، اسمولی378825 بلاری358386 اور چندوسی اسمبلی حلقہ میں 391549ووٹر ہیں۔ چندوسی کے علاوہ چاروں اسمبلی سیٹوں پر سماج وادی پارٹی نے قبضہ کررکھا ہے۔ اس سے اُمید لگائی جارہی ہے کہ پارلیمانی سیٹ پر بھی سماج وادی پارٹی کا قبضہ برقرار رہے گا،سنبھل سماجوادی پارٹی گڑھ تصور کیا جاتا ہے نواب اقبال محمود لگاتار6/ بار اس سیٹ کو سماج وادی پارٹی کیلئے کامیاب کرچکے ہیں وہ سماج وادی حکومت میں دو بار کابینی وزیر بھی رہ چکے ہیں ڈاکٹر برق صاحب کے انتقال کے بعد سینئر لیڈر ہونے کی بنا پر پارلیمانی سیٹ سے انھیں سب سے مضبوط امیدوار خیال کیا جارہا تھا مگرعوام میں ڈاکٹر برق کے انتقال کی جذباتی ہمدردی کی لہر اور اقبال محمود کی کی طرف سے ٹکٹ کیلئے کوئی ضدی مطالبہ نہ دیکھ کر پارٹی نے اس سیٹ کو ڈاکٹر برق کی وراثت کا نام دے کر عوام میں مزید ہمدردی پیدا کردی ہے مگر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سماج وادی پارٹی میں آپسی رسا کشی اور جیت کے تئیں حد سے زیادہ خوش فہمی سے الیکشن کے نتائج ہماری خواہشات کے خلاف ہوسکتے ہیں اب ایک طرف بی جے پی امیدوار ہے جو بہت ہی منظم طریقہ سے انتخابی مہم میں مصروف ہے، بی ای پی امیدوار بھی مسلم ووٹوں میں اپنی موجودگی درج کرانے کی جدوجہد کرہا ہے دوسری طرف ضیا الرحمن برق ہیں جو سیاست کا بہت زیادہ تجربہ تو نہیں رکھتے مگر دادا مرحوم کی سیاست کو قریب سے دیکھنے کا موقع انھیں ضرور ملا ہے اب وہ کو نسی حکمت عملی اپنائیں گے جس سے اس ورثت کو کا بچایا جاسکے۔