تحریر:انل جین
ایسا لگتا ہے کہ دلت طبقہ کے رہنما، جو پچھلے کچھ سالوں کی سیاست میں ایک برانڈ کے طور پر ابھرے ہیں، بی جے پی کی آنکھیں بری طرح چبھ رہے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے دلت لیڈروں کو ایک برانڈ بنا نے کی کوشش کررہی ہے، لیکن وہ اسی وقت برانڈ بن سکیں گے جب ماضی یا حالیہ دور میں اٹھنے والے دلت لیڈر اپنی اہمیت کھو دیں یا پریشان ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں کئی بی جے پی مخالف دلت لیڈر مشکل میں ہیں یا مختلف وجوہات کی بنا پر پھنس گئے ہیں۔ ایک طرف بی جے پی نے وجے سانپلا سے لے کر سنجے پاسوان، بے بی رانی موریہ اور اسیم ارون کو آگے کیا ہے اور دوسری طرف اس نے جگنیش میوانی، چندر شیکھر آزاد، چراغ پاسوان، چرنجیت سنگھ چنی وغیرہ پر شکنجہ کسا ہے۔ گجرات میں دلت آئیکون کے طور پر ابھرنے والے جگنیش میوانی کو آسام پولیس نے سبق سکھایا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرنے والے ایک ٹویٹ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد آسام پولیس نے میوانی کو گرفتار کر کے کئی دنوں تک حراست میں رکھا تھا۔ یہی نہیں، ان کے خلاف ایک خاتون پولیس اہلکار کے ساتھ بدتمیزی کا مقدمہ بھی الگ سے درج کیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ آسام پولیس کو اس کے لیے عدالت سے سخت پھٹکار سننی پڑی۔ اتر پردیش کے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں گورکھپور سے انتخاب لڑنے والے چندر شیکھر آزاد کو بھی کئی مقدمات کا سامنا ہے اور وہ طویل عرصے جیل میں بھی رہے ہیں۔
اسی طرح حکومت نے رام ولاس پاسوان کے بیٹے چراغ پاسوان سے 12، جن پتھ پر واقع بنگلہ زبردستی خالی کر ایا۔ خود کو نریندر مودی کا ہنومان کہنا بھی کام نہیں آیا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد دلت چہرے کے طور پر تیزی سے ابھرنے والے چرنجیت سنگھ چنی کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی ان کے بھانجے کے خلاف کارروائی کی آنچ کسی بھی وقت ان تک پہنچ سکتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ بننے کے تین ماہ کے اندر ہی ان کے بھتیجے کے خلاف کارروائی کی گئی اور کئی کروڑ روپے برآمد کر لیے گئے۔
(بشکریہ :نیوز کلک، یہ تبصرہ نگارکے ذاتی خیالات ہیں )