اقوام متحدہ کے ایک سینیئر امدادی اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے وہاں کی آدھی آبادی فاقہ کشی کا شکار ہے۔
بی بی سی کے مطابق اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر کارل سکاؤ نے کہا کہ غزہ پٹی میں ضروری سامان کا صرف ایک حصہ ہی داخل ہو پا رہا ہے جس کی وجہ سے 10 میں سے نو لوگوں کو روزانہ کا کھانا بھی میسر نہیں۔
مسٹر سکاؤ نے کہا کہ غزہ کے جنگی حالات نے رسد اور سامان کی ترسیل کو ’تقریباً ناممکن‘ بنا رکھا ہے۔
جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اسے حماس کے خاتمے اور اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے غزہ پر فضائی حملے جاری رکھنا ہوں گے۔
اسرائیلی دفاعی افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیچٹ نے ہفتے کے روز بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی بھی شہری کی موت اور درد تکلیف دہ ہے، لیکن ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ہم غزہ پٹی کے اندر جتنا ممکن ہے پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ سات اکتوبر سے غزہ کے اندر اور باہر نقل و حرکت پر بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔ واضح رہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سخت حفاظتی باڑ کو توڑ دیا تھا اور ان کے حملے میں 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ انھوں نے 240 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر دیں اور علاقے پر فضائی حملے شروع کر دیے اور غزہ کے باشندوں کے لیے ضروری سامان کی رسد اور امداد کی ترسیل کو بہت حد تک روک دیا۔
حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنی انتقامی مہم میں غزہ کے 17,700 سے زائد شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے جن میں 7,000 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔
مصر کی سرحد سے متصل صرف رفح کراسنگ کھلی ہے جس سے غزہ تک محدود مقدار میں امداد پہنچ سکتی ہے۔
رواں ہفتے اسرائیل نے امدادی لاریوں کے معائنے کے لیے اگلے چند دنوں میں اسرائیل سے غزہ کے لیے کریم شلوم کراسنگ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بعد ٹرک غزہ میں داخل ہونے کے لیے رفح جائیں گے۔
مسٹر سکاؤ نے کہا کہ وہ کسی بھی طرح غزہ میں موجود ‘خوف، افراتفری اور مایوسی’ کے لیے تیار نہیں تھے جن کا انھیں اور ان کی ٹیم کو رواں ہفتے غزہ کے دورے کے دوران سابقہ پڑا۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے ‘گوداموں میں افراتفری، تقسیم کے مقامات پر ہزاروں مایوس بھوکے لوگوں کے ہجوم، سپر مارکیٹوں کی خالی الماریاں اور خستہ حال باتھ رومز اور پناہ گاہوں میں لوگوں کی گنجائش سے زیادہ بھیڑ’ دیکھی۔
گذشتہ ماہ بین الاقوامی دباؤ اور سات روزہ عارضی جنگ بندی سے غزہ پٹی میں کچھ اشد ضروری امدادی اشیا کی ترسیل کی اجازت ملی تھی لیکن ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کا اصرار ہے کہ غزہ پٹی کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اب دوسرے سرحدی کراسنگ کو کھولے جانے کی ضرورت ہے۔