نیویارک :
امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی مسلمان رکن کانگریس الہان عمر اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہیں اور اس کی وجہ ان کا ایک بیان ہے جس میں انھوں نے امریکہ اور اسرائیل کا موازنہ حماس اور طالبان سے کیا۔
پیر کے روز اپنی ایک ٹویٹ میں الہان عمر نے لکھا: ’ہم نے امریکہ، حماس، اسرائیل، افغانستان اور طالبان کی جانب سے ناقابل تصور ظلم اور بربریت دیکھی ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا: ’ہمارے پاس انسانیت کے خلاف جرائم کے تمام متاثرین کے لیے احتساب اور انصاف کا یکساں نظام ہونا چاہیے۔‘
اس ٹویٹ کے ساتھ الہان عمر نے اپنی ایک ویڈیو بھی شیئر کی جس میں وہ ایوان نمائندگان میں ایک کمیٹی کی سماعت کے دوران سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن سے سوال کر رہی ہیں۔
الہان عمر کا یہ بیان اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ مسلح تنازع کے بعد ہونے والی جنگ بندی کے کچھ ہی ہفتوں بعد سامنے آیا ہے۔ اس پر ان کے مخالفین کے علاوہ ان کی اپنی جماعت کے کچھ ارکان بھی غصے اور ناگواری کا اظہار کر رہے ہیں۔
تاہم جمعرات کے روز الہان عمر نے اس گروپ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے اسے شرمناک قرار دیا ہے۔
انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’یہ ان ساتھیوں کے لیے شرمناک ہے جو مجھے تب فون کرتے ہیں جب انھیں میری مدد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اب وہ مجھے فون نہیں کر رہے بلکہ مجھ سے وضاحت طلب کر رہے ہیں۔‘
’اس بیان میں اسلاموفوبیا کا حوالہ جارحانہ ہے۔ مسلسل ہراسانی اور اس خط پر دستخط کرنے والوں کی خاموشی ناقابل برداشت ہے۔‘
تاہم جمعرات کے روز اپنے ایک اور بیان میں الہان عمر نے کہا کہ ان کا مقصد دراصل انٹونی بلنکن سے ان واقعات کے بارے میں سوال کرنا تھا جو عالمی عدالت برائے جرائم میں پیش کیے گئے ہیں۔
تاہم ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر اراکین کے گروہ نے الہان عمر کی وضاحت پر لکھا کہ ’ہم الہان عمر کی جانب سے وضاحت کو خوش آئند قرار دیتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل اور حماس اور طالبان کے درمیان کوئی یکسانیت نہیں۔‘
وہ لوگ جو نظریات کی قید کی زندگی گزارتے ہیں وہ ہمیشہ ایسے حقائق کی تردید کرتے ہیں یا ان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرتے ہیں جو ان کی بدکاریوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔
امریکہ، اسرائیل، حماس اور طالبان سب کے سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ کچھ طاقت کے بل پر ظلم ڈھا رہے ہیں کچھ حکمت کے فقدان کی وجہ سے راست ٹکر لے کر نقصان اٹھا رہے ہیں۔
ابھی دہائیوں یہ سلسلہ جاری رہے گا جس میں وقتی تبدیلیاں اس طرح آ سکتی ہیں کہ ظالم کی جگہ مظلوم اور مظلوم کی جگہ ظالم لے لے۔ یہ انقلاب بہر حال نوع انسانی کے حق میں بدستور ظالمانہ رہے گا۔
البتہ اس کے ادراک کا دائرہ جتنا وسیع ہوگا، نظریات کا بھرم اتنا ہی ٹوٹے گا۔ عجب نہیں کہ ذات اور کائنات کی تسخیر کا یہ سفر ایک دن انسانوں کو معرفت کی اس منزل پر پہنچا دے جہاں دور دور تک اوہام کا کوئی وجود نہ ہو۔ مقصد کن کا رُخ بھی اسی طرف ہے۔
تلاش حق کسی انسانی پسند کا نام نہیں اور باطل بھی وہ نہیں جو کسی کی پسند نہ ہو۔ خدا گونا گونی کا خلق ہے جامد نظریات کا نہیں۔