برطانیہ میں واقع ایک رائٹس گروپ نے میانمار کی فوج پر اقلیتی مسلمانوں کو پریشان کرنے اور ایک مسجد میں آگ لگانے کا الزام لگایا ہے ۔
برما ہیومن رائٹس نیٹ ورک (بی ایچ آر این) نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ، ’اہلون ٹاؤن شپ یانگون میں ایک مسجد کو نذر آتش کرنا برما میں غیر قانونی فوجی انتظامیہ کے ذریعہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تشدد کا تازہ ترین واقعہ ہے ۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پورے برما میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف کئی مہینوں کے حملوں کے بعد مسجد میں آگ لگی ہے ۔اقلیتوں کے خلاف اس طرح کے حملے ’’ ناقابل برداشت‘‘ ہیں اور عالمی برادری کو ان واقعات کی سنگینی کااحساس ہونا چاہئے اور فوراً کارروائی کرنا چاہئے۔
بی ایچ آر این ریکارڈوں اور دیگر دستیاب رپورٹوں کے مطابق یکم فروری کے فوجی بغاوت کے بعد سے میانمار کی فوج کے ذریعہ 70 کم عمر بچوں سمیت 900 سے زیادہ شہری مارے گئے ہیں ۔ میانمار کی فوج نے انتخابات میں ’ انتخابی ھوکہ دہی ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے صدر ون منٹ ، اسٹیٹ کونسلر آنگ سان سوچی کو اقتدار سے بے دخل کردیا ہے۔
بی ایچ آر این کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیو ون نے کہا ،’دنیا کو فوری طور پر عالمی سطح پر اسلحہ پر پابندی لگانے اور تیل اور گیس سیکٹر سمیت تاتماڈو (میانمار آرمی) سے جڑے تمام کاروبار کو منظوری دینے کی ضرورت ہے ۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مو ہنہین شہر میں موہنہین مسجد اور بٹاریون اسٹریٹ مسجد پر 3 جون کو چھاپہ مارا گیا تھا۔ چھاپے کے دوران مسجد کے ایک متولی کو من مانی طور پر حراست میں لیا گیا تھا۔ اسی طرح کایوہ ریاست کے کنتھیار لوئکاو شہر میں ایک کیتھولک چرچ پر 24 مئی کو گولی باری کی گئی تھی۔ دراصل شہریوں نے وہاں پناہ لی ہوئی تھی۔ اس واقعہ میں تین خواتین اور ایک مد کی موت ہوگئی ۔
بیان کے مطابق 12 اپریل کو یانگون کے تموے میں ایک مسجد میں رہنے والے ایک مسلم شخص کو عورت کا لباس پہنایا گیا ۔ باندھاگیا ۔ بھانسی دی گئی اور مار ڈالا گیا۔ مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو ’ بڑی تشویش‘ کا معاملہ بتاتے ہوئے بیان میں انتباہ دیا گیا ہے کہ برما فوج اور لوگوں کے مابین وسیع پیمانے پر تنازعات چل سکتا ہے ۔