تحریر: سنتوش کمار
حراست میں ہونے والی اموات میں انصاف ملنا بہت مشکل ہوتاہے، حراستی موت کے کیس برسوں چلتے رہتے ہیں۔ اس وقت NHRC کے پاس حراستی موت کے 3,984 مقدمات زیر التوا ہیں۔ ان میں سے ایک اعظم گڑھ کے 38 سالہ ضیاء الدین خان کی امبیڈکر نگر میں دوران حراست موت کا معاملہ ہے۔ جہاں گزشتہ 10 ماہ سے ملزم پولیس اہلکار بھی گرفتار نہیں ہو سکے۔ ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اس معاملے سے متعلق رٹ پرٹیشن یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ یہ معاملہ NHRC میں زیر التوا ہے، اس لیے ہائی کورٹ میں آنا جلد بازی ہے۔ این ایچ آر سی کو ضلع انتظامیہ کی رپورٹ کا انتظار ہے، جب کہ ضلع انتظامیہ پر جوڈیشیل مجسٹریٹ کے بجائے ایس ڈی ایم سے تحقیقات کر کے معاملے کو دبانے اور این ایچ آر سی کی ہدایات کو نظر انداز کرنے کا الزام ہے۔
دراصل 25 مارچ 2021 کو اعظم گڑھ کے رہنے والے 38 سالہ ضیاء الدین کو امبیڈکر نگر کی SWAT ٹیم نے ایک معاملے میں پوچھ گچھ کے لیے اٹھایا تھا۔ الزام ہے کہ پولیس نے ضیاء الدین کو اعظم گڑھ سے اکبر پور غیر قانونی طور پر لے جا کر اس قدر مارا پیٹا کہ حراست میں ہی اس کی موت ہو گئی۔ SWAT کے انچارج دیویندر پال سنگھ سمیت 8 پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل اور اغوا کا مقدمہ درج ہوئے تقریباً 10 ماہ گزر چکے ہیں لیکن آج تک انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔ کارروائی کے نام پر صرف ان پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے۔ لیکن دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ تمام پولیس اہلکار روزانہ ایس پی آفس میں بے فکری سے گھومتے نظر آتے ہیں۔
پولیس نے ضیاء الدین کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیا
مقتول ضیاء الدین کے بھائی شہاب الدین خان کے مطابق، ’24 مارچ 2021 کو ضیاء الدین یہ کہہ کر گھر سے نکلے تھے کہ وہ رشتہ دارکے جارہے ہیں، لیکن جب اگلے دن فون کیا گیا تو اس کا پتہ نہیں چل سکا۔‘ 25-26 مارچ کی رات میری بھابھی کے موبائل پر فون آیا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کہاں ہیں؟ ہم بہت پریشان ہوگئے، جب ہم نے ٹرکالر سے نمبر چیک کیا۔تووہ یہ دیویندر پال سنگھ کے نام پر تھا۔پھر پوائی پولیس اسٹیشن (اعظم گڑھ) سے ہمارے جاننے والے دو لوگوںکے پاس فون آیا کہ ضیاء الدین کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔لیکن تھانے سے بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کہاں ہے۔؟ اسے ڈھونڈنا شروع کیا، ہمیں کچھ پتہ نہیں چلا، ہم جیت پور تھانے (امبیڈکر نگر) بھی گئے لیکن وہاں سے بھی کچھ معلوم ہوسکا، تو ہم نے ایم ایل اے سبھاش رائے سے اس نمبر پر کال کیا، تو دیویندر پال سنگھ نے بتایا کہ ان کی موت ہوگئی ہے اور ان کی لاش امبیڈکر نگر صدر اسپتال میں رکھی گئی ہے۔
شہاب الدین نے مزید بتایا کہ ہم نے تحریر دی اور مردہ خانے میں لے گئے اور ویڈیو گرافی کے ذریعے پوسٹ مارٹم کروایا، پولیس انتظامیہ ایف آئی آر درج کرنے کو بھی تیار نہیں تھی، لیکن مقامی لوگوں کی مدد سے ہم نے ان پر دباؤ ڈالا، اس کے بعد وہ قتل اور اغوا کی دفعات میں کیس درج کیا۔ وہ لوگ پوسٹ مارٹم کے دوران ویڈیو گرافی کرنے کو تیار نہیں تھے، اس لیے ہم نے ڈی ایم کو خط لکھا کہ ہمیں ویڈیو گرافی کے ساتھ پوسٹ مارٹم رپورٹ چاہیے۔ ڈی ایم نے سی ایم او کو حکم دیا، پھر ویڈیو گرافی ہوئی، ہمیں شک تھا کہ اگر انتظامیہ اس میں ملوث ہے تو وہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کریں گے اور اب تک کوئی تعاون نہیں ہوا، ایف آئی آر کے بعد ابھی تک کوئی خاص کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ SWAT ٹیم انچارج اور دیگر ملزمان صلح کے لیے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں لیکن ہم لوگوں نے کہا کہ ہمیں انصاف چاہیے۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس معاملے کو دبانے کے لیے ضلع انتظامیہ نے آج تک متوفی ضیاء الدین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی پبلک نہیں کی۔ قومی انسانی حقوق کمیشن نے بھی ضیاء الدین کی موت کے معاملے میں ضلع انتظامیہ سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ لیکن ضلع انتظامیہ نے اسے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ پولیس نے ابھی تک چارج شیٹ بھی داخل نہیں کی ہے۔
مقتول ضیاء الدین کے والد علاؤالدین خان نے کہاکہ مجھ کو تکلیف یہ ہے کہ اگر میںایک بار اسے گولی مار دیے ہوتے تو برداشت کرلیتا میں، اس کو اتنے تشدد سے مارا گیا کہ پورے جسم پر زخموں کا کوئی گنتی نہیں تھیکہ کتنے زخم ہیں؟ وجہ معلوم ہونی چاہیے کہ میرے بچے کا کیا قصور ہے، کیا غلطی ہے؟ ہمارے پوائی تھانے میں اس کا ریکارڈ بھی بالکل ٹھیک ہے۔ اس بڑھاپے میں میری مالی حالت ٹھیک نہیں، میرا چھوٹا بچہ چلا گیا جو لکڑی کا کاروبار کرتا تھا اور اپنے بچوں کے لیے 100-50 روپے کماتا تھا، لیکن آج ان بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔ مجھے حکومت سے امید ہے کہ میں جلد از جلد انصاف اور انصاف چاہتا ہوں۔ بڑے بڑے قاتل قتل کرنے کے بعد باہر دندناتے پھرتے ہیں، میرا بچہ بے گناہ تھا، مارا گیا، کیوں مارا گیا؟ آج تک کسی کو وجہ معلوم نہیں ہوئی۔ مجھے پوری امید ہے کہ انصاف ملے گا کیونکہ سب سے بڑا انصاف کرنے والاتو اوپر ہے لیکن یہاں انسانوں کو بھی انصاف کرنا چاہیے، بوڑھے باپ اور بچوں کی حالت دیکھ کر مجرموں کو بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔
ایس ڈی ایم کی جانچ رپورٹ میں پولیس اہلکار قصوروار نہیں پائے گئے: ایس پی
اس واقعے کے فوراً بعد 26 مارچ 2021 کو امبیڈکر نگر کے ایس پی آلوک پریہ درشی نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس ڈکیتی کے ایک معاملے میں بدمعاش کی تلاش کر رہی تھی۔ مخبر سے اطلاع ملی کہ ضیاء الدین اس بدمعاش کے بارے میں جانتا ہے اور معلومات دے سکتا ہے۔ اسی لیے امبیڈکر نگر کی SWAT ٹیم نے اسے پوچھ گچھ کے لیے اٹھایا۔ پوچھ گچھ کے دوران ضیاء الدین نے خرابی صحت کی شکایت کی۔ اسے فوری طور پر طبی علاج کے لیے ضلع اسپتال لے جایا گیا، دوپہر 1:12 بجے داخل کیا گیا اور 1:45 بجے اس کی موت ہوگئی۔ ایس پی نے کہا کہ ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ضیاء الدین کو سانس لینے میں تکلیف تھی اور سینے میں درد تھا۔
امبیڈکر نگر کے ایس پی آلوک پریہ درشی کے مطابق مجسٹریل جانچ میں اس قتل کے لیے کسی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا ہے اور نہ ہی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ واضح ہے، اس لیے متوفی کا ویسرا جانچ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ ایس پی نے متاثرہ خاندان کے تمام الزامات کو واضح طور پر مسترد کر دیا۔
ضیاء الدین کیس میں ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرنے والی وکیل اشما عزت نے رٹ پٹیشن کے خارج ہونے کے بعد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے کام کاج پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے کہ اگر این ایچ آر سی میں کوئی مقدمہ چل رہا ہے۔ ہائی کورٹ اس پر کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔فیصلہ نہیں دے سکتا اور نہ ہی معاملے کو تیز کرنے کی ہدایت دے سکتا ہے۔ لیکن حراستی موت کے معاملے میں ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کا رویہ یہ ہے کہ وہ اس احساس کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ حراستی موت کے بعد ان کے رشتہ دار کس تکلیف سے گزر رہے ہیں، اسی لیے انہوں نے رٹ کو خارج کر دیا۔ ورنہ کم از کم ہدایات تو دی جا سکتی تھیں۔ لوگ ہمارے ہی معاشرے سے جا کر جج بنتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ اوپر سے آئے ہیں۔ پولیس ہو یا عدلیہ، وہ حساس نہیں کیونکہ وہ زمین پر نہیں جاتے، اس لیے وہ اس درد کو محسوس نہیں کر پاتے۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ ہندی)