*بدایوں سے گراؤنڈ رپورٹ
اتر پردیش کی بدایوں لوک سبھا ہاٹ سیٹ پر سیاسی ماہرین سے لے کر عام لوگوں تک کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ یہاں اصل مقابلہ ببی جے پی کے دوروجئے شاکیا اور سینئر سماج وادی پارٹی لیڈر شیو پال یادو کے بیٹے آدتیہ یادو کے درمیان ہے۔ تاہم بہوجن سماج پارٹی نے مسلم امیدوار مسلم خان کو میدان میں اتار کر مقابلہ کو سہ رخی بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہاں بھلے ہی آدتیہ چناؤ لڑرہے ہوں مگر لوگوں کا کہنا ہے کہ سامنے شیو ہال ہی ہیں آدتیہ کی اتنی پہچان نہیں ہے اس لئے یہ وقار کی سیٹ بن گئی ہے مغربی اتر پردیش کی بدایوں لوک سبھا سیٹ کو روایتی طور پر سماج وادی پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
ایس پی نے کئی قلابازیاں کھائیں مثلا ابتدا میں یہاں سے دھرمیندر یادو کے نام کا اعلان کیا تھا، وہ دو بار بدایوں سے ایم پی بھی رہ چکے ہیں۔ لیکن بعد میں شیو پال یادو کی امیدواری کا اعلان ہوا۔ اس کے بعد شیو پال نے یہاں سے اپنے بیٹے آدتیہ یادو کو میدان میں اتارا، جس کے بعد بدایوں سیٹ بحث میں آگئی۔
دوسری طرف بی جے پی نے اس سیٹ پر موجودہ ایم پی سنگھ مترا موریہ کا ٹکٹ منسوخ کر کے برج علاقہ کے صدر دوروجئے شاکیا پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق وہ سنگھ کی پسند ہیں اور انہیں تنظیم کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔بی جے پی اور ایس پی دونوں پارٹیوں کے امیدوارپہلی بار الیکشن لڑ رہے ہیں۔اب جبکہ ووٹنگ میں صرف ایک دن رہ گیا ہے انتظامیہ پر اپوزیشن کارکنوں کو ہراساں کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں خود شیوبال نے میڈیا کو بتایا
بازی کس کے ہاتھ؟
یہ سیٹ بی جے پی کے لیے زیادہ چیلنج سمجھی جاتی ہے۔ تاہم،اینٹی کمبینسی کو دیکھتے ہوئے، بی جے پی نے اس سیٹ پر اپنا امیدوار تبدیل کیا ہے، پھر بھی مقابلہ قریب یسمجھا جا رہا ہے۔خاص طور سے بی ایس پی مسلم امیدوار اتار کر کر ایس پی کے ماتھے پر شکنیں ڈال دی ہیں ۔دیکھنا ہوگا کہ اس کا امیدوار مسلمانوں پر کتنا اثرانداز ہوتا ہے
2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے سوامی پرساد موریہ کی بیٹی سنگھمترا کو میدان میں اتارا تھا۔ انہوں نے سماج وادی پارٹی کے امیدوار دھرمیندر یادو کو 19 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ تاہم، سوامی پرساد موریہ کی بغاوت اور بی جے پی پر ان کے مسلسل حملوں کے بعد، پارٹی نے ان کی بیٹی اور موجودہ رکن پارلیمنٹ سنگھمترا موریہ کو ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا۔
بدایوں لوک سبھا حلقہ کے اندر پانچ اسمبلی حلقے ہیں۔ ان میں سے تین پر سماج وادی پارٹی اور دو بی جے پی کے پاس ہیں۔
اگرچہ آدتیہ میدان میں ہیں لیکن شیو پال یادو نے الیکشن کی کمان سنبھال لی ہے۔ یہ سیٹ 1996 سے ایس پی کے پاس ہے۔ دھرمیندر یادو نے 2009 اور 2014 میں کامیابی حاصل کی تھی۔تاہم 2019 کے انتخابات میں ایس پی، بی ایس پی اور آر ایل ڈی کا اتحاد تھا۔ لیکن اس کا فائدہ بدایوں کی سیٹ پر نہیں ملا۔ اس بار کانگریس سماج وادی پارٹی کے ساتھ اتحاد میں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سے کتنا فائدہ ہوتا ہے؟
*ووٹوں کا تناسب
بدایوں سیٹ پر یادو چارلاکھ،مسلم 3.75لاکھ دیگر اوبی سی2.3لاکھ، ایس سی 1.75لاکھ ویشیہ اور برہمن 1.25لاکھ ہیں اس طرح یہ سیٹ یادو مسلم گول بندی (مسلم چودہ فیصد یادو اٹھارہ فیصد ) پر منحصر ہے -بی ایس پی نے مسلم امیدوار مسلم خان کو میدان میں اتار کر ایس پی کی امیدوں کو جھٹکا دیا ہے اور مقابلہ کو سہ رخی بنادیا ہے مسلم خان یہاں کافی بااثر ہیں گرچہ یہاں بھی مسلمانوں کا عام رجحان گٹھ بندھن کی طرف ہے اگر مسلم رائے دہندگان تقسیم ہو گئے تو جیت یا ہار کا مارجن کم ہو سکتا ہے۔ ایسے میں بی جے پی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
بی جے پی اپنی سیٹ کو برقرار رکھنے کے لیے غیر یادو او بی سی کی حمایت پر منحصر ہے، جس میں 14% موریہ ووٹر، 9% لودھ کے ساتھ ساتھ راجپوت (7%) اور برہمن (6%) شامل ہیں۔
گزشتہ انتخابات کے نتائج پر ایک نظر
2019 کے لوک سبھا انتخابات میں، بی جے پی نے سماج وادی پارٹی کے اس گڑھ کو توڑا اور 1991 کے بعد جیت درج کی۔۔ ایس پی کے ووٹ شیئر میں صرف 2.91 فیصد کمی آئی اور وہ سیٹ ہار گئی۔ سنگھمترا کو 47.30 فیصد ووٹ ملے۔
2014 کے لوک سبھا انتخابات میں، ایس پی نے مضبوط مودی لہر کے درمیان اس سیٹ پر اپنی گرفت برقرار رکھی تھی۔ دھرمیندر یادو نے بی جے پی کے وگیش پاٹھک کو 1,66,347 ووٹوں سے شکست دی۔ ان کا ووٹ شیئر 16.8 فیصد بڑھ کر 48.50 فیصد ہوگیا اس وقت بی جے پی دواسمبلی سیٹوں بلدی اور بدایوں شہر پر قابض ہے جبکہ ایس پی کے ہاتھ میں تین گنور،بلدی (ایس سی)اور سہسوان ہیں
عام ووٹر یہاں بھی چپ ہے اور وہ بی جے پی کے تعلق سے بیزار نظر آتا ئے وہ تبدیلی چاہتا ہے بی جے پی چاہے گی کہ مسلم خان زیادہ سے زیادہ مسلم ووٹوں پر شب خون ماریں اس کی جیت کا راستہ وہی طے کریں گے مگر شیو پال کے لئے بھی یہاں کرو یا مرو کا معاملہ ہے اس لئے وہ ڈیرا ڈال کر بیٹھ گئے ہیں -بیٹے کو جتانا ان کی مونچھ کا سوال بن گیا ہے-