لکھنؤ:(ایجنسی)
سی اے اے مخالف احتجاج کو اب دو سال ہونے جا رہے ہیں۔ اترپردیش میں دسمبر 2019 میں مظاہرے کے دوران تشدد میں تقریباً 22 لوگوں کی جانیں گئیں۔ دو سال بعد اب اس کا ذکر صرف انتخابی تقاریر میں ہوتا ہے۔ چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے ملزمین کی جائیدادیں ضبط کی جائیں۔ تاہم انتخابی مہم کے دوران سی اے اے کا کبھی ذکر نہیں کیا گیا۔
’دی انڈین ایکسپریس‘ کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ کس طرح ہائی کورٹ کے حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے اترپردیش میں 500 لوگوں کو وصولی کے نوٹس بھیجے گئے۔ نوٹس میں جائیداد کی قیمت، الزام اور ذمہ داری کا تعین کیا گیا ہے۔ 10 اضلاع کو بھیجے گئے 500 نوٹسز میں کہا گیا ہے کہ جائیداد کی ضبطی اور تقریباً 3.35 کروڑ روپے کا جرمانے کی بات کئی گئی ہے۔
لکھنؤ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ویبھو مشرا کی جانب سے 46 لوگوں کو ریکوری کا نوٹس بھیجا گیا تھا۔ ان سبھی پر حضرت گنج میں تشدد اور تخریب کاری کا الزام ہے۔ اس معاملے میں دو ایف آئی آر درج کی گئیں اور 64.37 لاکھ کا نقصان بتایا گیا۔ اے ڈی ایم نے ان سبھی کو 64.37 لاکھ کی وصولی کا نوٹس دیا ہے۔
اے ڈی ایم کے سامنے دیوانی کارروائی سے پہلے، ان 46 لوگوں میں سے صرف 28 کا نام ایف آئی آر میں تھا۔ یہ سب ضمانت پر باہر ہیں۔ ان میں سے کسی بھی معاملے میں پولیس کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ تمام آرڈرز میں ایک ہی لائن لکھی ہے، ‘مظاہرین نے تین او بی وین کو بھی آگ لگا دی تھی، اس لیے تصویر اور ویڈیو ثبوت دستیاب نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ جو تصاویر لی گئی ہیں وہ بھی واضح نہیں ہیں۔
ان 46 لوگوں پر آئی پی سی کی دفعہ 146 (فسادات بھڑکانا)، 186 (سرکاری اہلکاروں کے کام میں رکاوٹ ڈالنا) 152 اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پریوینشن آف ڈیمیج ٹو پبلک پراپرٹی ایکٹ بھی لگایا گیا تھا۔