نئی دہلی :(ایجنسی)
ملک کی راجدھانی کے براڑی میں 3 اپریل کو پولیس کی اجازت کے بغیر منعقد کی گئی ’ہندو مہاپنچایت‘میں صحافیوں پر بھیڑ نے حملہ کیا۔ حملہ کے ایک واقعہ میں بھیڑ نے نیوز لانڈری کی رپورٹرز شیوانگی سکسینہ اور رونق بھاٹی کونشانہ بناگیا۔ اس معاملے میں آئی پی سی کی دفعہ 354 اور 323 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
دوسرے واقعے میں دو صحافیوں کو مارا پیٹا گیا اور دی کوئنٹ کے چیف نامہ نگار میگھناد بوس کے ساتھ بھیڑ نے دھکا مکیکی۔ اس کے بعد دہلی پولیس نے مذکورہ تینوں صحافیوں سمیت پانچ صحافیوں کو دوپہر تقریباً ڈیڑھ بجے ’ہندو مہاپنچایت‘ سائٹ سے باہر نکالا۔ انہیں مکھرجی نگر پولیس اسٹیشن لے جایا گیا جہاں انہوں نے اپنا بیان دیا۔
میگھناد بوس کے علاوہ دیگر صحافی بھی ہیں – میر فیضل (ہندوستان گزٹ میں کام کرتے ہیں)، فوٹو جرنلسٹ محمد مہربان، آزاد صحافی ارباب علی۔ پانچوں صحافی اپنا نام خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔
ارباب علی نے ٹویٹر پر کہا کہ ’’وہ اور میر مہاپنچایت میں انٹرویو لے رہے تھے تبھی بھیڑ نے ان کا فون اور کیمرہ چھین لیا، علی نے کہاکہ ’ جب میر اور میں انہیں اپنا نام بتایا تو انہوں نے ہمیں جہادی کہا ۔‘‘
انہوں نے میر فیضل کے کیمرے اور میرے فون سے ویڈیو ڈیلیٹ کر دی۔ دائیں بازو کا ہجوم ہمیں مارنے سے کچھ ہی فاصلے پر تھا۔ پولیس آئی اور ہمیں پولیس وین میں بٹھا کر بمشکل لے جانے میں کامیاب ہوئی۔
آرٹیکل 14 کی جانب سے ہندو مہاپنچایت کی کوریج کرنے گئے رپورٹر نے بتایا کہ فیضل اور دو پولیس والے انہیں ہجوم سے بچانے آئے تھے لیکن وہ ناکام رہے۔ بعد ازاں مزید پولیس اہلکار آئے اور بمشکل دونوں صحافیوں کو ہجوم سے نکالا اور پولیس وین تک لے گئے۔
دی کوئنٹ کے میگھناد بوس اور زخمی مہربان سمیت تین دیگر نامہ نگاروں کو بھی پولیس وین میں لے جایا گیا۔ میگھناد بوس نے بتایا کہ دوپہر صحافیوں کو چھوڑنے پولیس ایک پی سی آر وین میں لے جارہی تھی ،لیکن انہیں بیان دینے کے لیے بیچ میں ہی لوٹنا پڑا۔
مہاپنچایت کی اجازت نہیں تھی
دی کوئنٹ نے 2 اپریل بروز ہفتہ کو اطلاع دی تھی کہ دہلی پولیس اورDDA نے سیو انڈیا فاؤنڈیشن کو ’ہندو مہاپنچایت‘ منعقد کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، اس کے باوجود آج یہ تقریب بھاری پولیس کی تعیناتی کے درمیان منعقد کی گئی۔
متنازع ہندوتوا لیڈر یتی نرسنگھانند، جنہوں نے 2021 میں ہری دوار سنسدمیں مسلم کمیونٹی کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کیں، بھی اس مقام پر موجود تھے۔ دی انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق نرسنگھانند نے کہا کہ بھارت میں اگر کوئی مسلمان وزیراعظم بنا تو 40 فیصد ہندو مارے جائیں گے۔
ڈی سی پی نارتھ ویسٹ دہلی اوشا رنگانی نے کہا کہ پولیس نے سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے نامہ نگاروں کو پروگرام سے دور لے گئی تھی۔ انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا: ’کچھ رپورٹرز رضاکارانہ طور پر ہجوم سے بچنے کے لیے پنڈال میں کھڑی پی سی آر وین میں سوار ہو گئے، جو ان کی موجودگی سے مشتعل ہو رہے تھے اور انہوں نے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر پولیس اسٹیشن جانے کا انتخاب کیا۔ کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا۔ اورانہیں مناسب پولیس تحفظ فراہم کیا گیا ۔
مزید برآں، ایڈیشنل ڈی سی پی (نارتھ ویسٹ) کرشنا کمار نے دی کوئنٹ کو بتایا کہ نامہ نگاروں کو حراست میں نہیں لیا گیا، بلکہ جھڑپ کے بعد پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ نامہ نگاروں نے خود پولیس سے کہا تھا کہ وہ انہیں وہاں سے بحفاظت باہر لے جائیں۔
پولیس کے مطابق چونکہ ان رپورٹرز کے پاس مناسب کیمرہ نہیں تھا، صرف ایک فون کیمرہ تھا، اس لیے ہجوم نے سوال کیا کہ کیا وہ واقعی رپورٹرز ہیں؟ اے ڈی سی پی کمار نے کہا کہ ’اسی لیے ہم نے مداخلت کی۔‘