نئی دہلی : (ایجنسی)
‘’السلام علیکم ‘ پر دہلی پولیس کے تبصروں کا حوالہ دیتے ہوئے دہلی فسادات کی سازش معاملے کے ملزم اور کارکن خالد سیفی نے جمعہ کو کہا کہ اگر یہ غیر قانونی ہے تو وہ یہ کہنا بند کردیں گے۔ خالد سیفی کا یہ تبصرہ اس وقت سامنے آیا جب کچھ دن پہلے پولیس نے کہا تھا کہ اس معاملے میں ملزم جے این یو طالب علم شرجیل امام نے اپنے مبینہ اشتعال انگیز بیانات میں سے ایک کی شروعات ’السلام علیکم ‘ کے ساتھ کی تھی،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک خاص کمیونٹی کو مخاطب کرنے کے لیے تھا ناکہ عام لوگوں کو۔
سیفی نے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت سے پوچھا ، ’میں ہمیشہ اپنے دوستوں کو سلام کے ساتھ استقبال کرتا ہوں ۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ غیر قانونی ہے تو میں یہ کہنا بندکر دوں گا۔یہ کوئی قانون ہے یا استغاثہ کامفروضہ؟ ان کے اس سوال پرسیشن جج رات نے واضح کیاکہ یہ استــغاثہ کی دلیل ہے نہ کہ عدالت کا بیان ہے۔ عدالت میں سماعت ویڈیوکانفرنس کےذریعہ ہوئی ۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد علی گڑھ میں 16 جنوری 2020 کو شرجیل امام کے ذریعہ دئے گئے بیان کو یکم ستمبر کو پڑھا تھا اور کہا تھا ’’ شرجیل امام نے اپنی تقریر کی شروعات السلام علیکم کہتے ہوئے کی جو ظاہر کرتاہے کہ یہ صرف ایک کمیونٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاگیا۔ سیفی نے کہاکہ جب بھی انہیں ضمانت ملے گی تو وہ سازش معاملے میں چارج شیٹ پر 20 لاکھ قیمتی کاغذ کی بربادی کے لیے پولیس کے خلاف نیشنل گرین ٹربیونل ( این جی ٹی ) میں ایک معاملہ دائر کریں گے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت خالد سیفی کے ساتھ کئی دیگر افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ان پر فروری 2020 میں تشدد کا ماسٹر مائنڈ ہونے کا الزام ہے۔ اس تشدد میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے۔
خالد سیفی کے علاوہ سابق جے این یو طلبہ رہنما عمر خالد ، نتاشا ناروال اور دیوانگنا کلیتا ، جامعہ رابطہ کمیٹی کی رکن صفورا زرگر ، آپ کے سابق کونسلر طاہر حسین اور کئی دیگر لوگوں پر بپی فساد کے متعلق سخت قانون کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے ۔