ترک صدر طیب اردگان نے اس سال کے آغاز میں اپنے اقتدار کی دو دہائیاں مکمل کیں۔ ان بیس سالوں کے دوران انہوں نے پہلے بطور وزیر اعظم اور بعد میں صدر کے طور پر ترکی کی باگ دوڑ سنبھالے رکھی۔ اب وہ 14 مئی کو ہونے والے انتخابات میں مسلسل تیسری بار صدر منتخب ہونے کے خواہش مند ہیں۔ انہتر سا
نے اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں ایک مصلح کے طور پر انسانی حقوق اور آزادیوں کو توسیع دی۔ ان کے ایسے ہی قدامات کے نتیجے میں اس اکثریتی مسلم ملک کی یورپی یونین کی رکنیت کے لیے مذاکرات شروع کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔
بعد میں انہوں نے اختلاف رائے کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے میڈیا کا گلا گھونٹنے اور جمہوریت کش اقدامات کا راستہ اختیار کر لیا۔ معاشی بدحالی، بلند افراط زر اور ملک میں آئے تباہ کن زلزلے کے صرف تین ماہ بعد ہونے پر والے صدارتی اورپارلیمانی انتخابات ایردوآن کے سیاسی کیرئیر میں ان کے لیے اب تک کا سب سے بڑا چیلنج ہو سکتے ہیں۔
آئیے صدر ایردوآن کی زندگی کے اہم سیاسی واقعات پر ایک سر سری نظر ڈالتے ہیں۔
27 مارچ 1994: اردگا۔ اسلامک ویلفیئر پارٹی کے ٹکٹ پر استنبول کے مئیر منتخب ہوئے۔
اگست 2001: ایردوآن نے اسلامک ویلفیئر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنے اصلاح پسند ونگ کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر قدامت پسند جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی، یا اے کے پی کی بنیاد رکھی۔
3 نومبر 2002: اپنے قیام کے صرف ایک سال بعد اے کے پی نے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کر لی، تاہم سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے ایردوآن ان انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔
9 مارچ 2003: اردگاناپنے پر سے سیاسی پابندی ہٹائے جانے کے بعد ایک خصوصی الیکشن میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور صرف پانچ روز بعد ہی ایک ساتھی کی جگہ وہ پی ایم بن گئے
اکتوبر 2005: ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے بات چیت شروع کی۔
22 جولائی 2007: اردگان نے انتخابات میں مجموعی طور پر 46.6 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
20 اکتوبر 2008: فوجی افسران اور دیگر عوامی شخصیات کے خلاف ٹرائلز کا پہلا سلسلہ شروع ہوا۔ ان مشتبہ افراد پر حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے کا الزام تھا۔ یہ عدالتی کارروائیاں ایردوآن کے مخالفین کو ختم کرنے کے لیے استعمال کی گئیں۔ بعد میں ان مقدمات کے قیام کا الزام امریکہ میں مقیم ایک ترک عالم دین فتح اللہ گولن کے نیٹ ورک پر لگایا گیا۔
12 ستمبر 2010: ایردوآن نے آئینی تبدیلیوں پر ریفرنڈم جیت لیا جس کے تحت حکومت کو ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری، فوج کے اختیارات کم کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کا اختیار ملا کہ صدر کا انتخاب پارلیمنٹ کے بجائے قومی ووٹ سے ہو۔
12 جون 2011: ایردوآن نے عام انتخابات میں 49.8 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔10 اگست 2014: ایردوآن نے براہ راست انتخاب کے ذریعے ترکی کے پہلے صدراتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی
28 مئی 2013: ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول کے ایک پارک میں درخت کاٹنے کے منصوبے کے خلاف ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے۔ حکومت پر ان مظاہروں کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کرنے کا الزام لگا۔
10 اگست 2014: ایردوآن نے براہ راست انتخاب کے ذریعے ترکی کے پہلے صدراتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔
7 جون 2015: اے کے پی نے پارلیمان میں اپنی اکثریت کھو دی۔ اس کے بعد ایک خود کش حملے سمیت کئی مہینوں کے عدم تحفظ کے بعد نومبر میں دوبارہ انتخابات میں پارٹی نے اپنی کھوئی ہوئی اکثریت دوبارہ حاصل کر لی۔
16 اپریل، 2017: ریفرنڈم میں ترک ووٹروں نے ملک کا سیاسی نظام پارلیمانی جمہوریت سے ایگزیکٹو یا صدارتی نظام کے حق میں ووٹ دیا۔ ناقدین اسے ایردوآن پر مشتمل ”ایک آدمی کی حکمرانی‘‘ کہتے ہیں۔
24 جون 2018: ایردوآن ایک مرتبہ پھر انتخابات میں 52.59 فیصد ووٹ لے کر ایگزیکٹو اختیارات کے ساتھ ترکی کے پہلے صدر بن گئے۔
22 جون 2019: اے کے پی کو اس وقت دھچکا پہنچا، جب وہ استنبول کے میئر کے لیے انتخابات میں ہار گئی۔
15 جولائی 2016: صدر ایردوآن کی حکومت ایک فوجی بغاوت سے بچ گئی۔ اس کوشش کا الزام ایردوآن کے ایک سابق اتحادی فتح اللہ گولن کے پیروکاروں پر لگایا گیا۔ اس کے بعد حکومت نے گولن کی تنظیم کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا۔
16 اپریل، 2017: ایک ریفرنڈم میں ترک ووٹروں نے ملک کا سیاسی نظام پارلیمانی جمہوریت سے ایگزیکٹو یا صدارتی نظام پر منتقل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ ناقدین اسے ایردوآن پر مشتمل ”ایک آدمی کی حکمرانی‘‘ کہتے ہیں۔
6فروری 2023: ایک طاقتور زلزلے نے ترکی کے کچھ حصوں کو تباہ کر دیا۔ شام سمیت ترکی میں 50,000 سے زیادہ افراد مارے گئے۔ ایردوآن حکومت کو اس قدرتی آفت پر ناقص ردعمل کے نتیجے میں سخت تنقید کا نشانہ بننا پڑا
24 جون 2018: اردگان نےایک مرتبہ پھر انتخابات میں 52.59 فیصد ووٹ لے کر ایگزیکٹو اختیارات کے ساتھ ترکی کے پہلے صدر بن گئے۔
22 جون 2019: اے کے پی کو اس وقت ایک بڑا دھچکا پہنچا، جب وہ استنبول کے میئر کے لیے انتخابات میں ہار گئی۔(ڈی ڈبلیو)