مسلم پرسنل لا کے تحت خواتین کو خلع کے ذریعے اپنی شادی ختم کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن وہ اپنے شوہروں کو صرف فیملی کورٹ میں جا کر طلاق دے سکتی ہیں۔ وہ یہ کام شریعت کونسل یا کمیونٹی کے لوگوں کے سامنے نہیں کر سکتیں۔ مدراس ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا کہ مسلم خواتین کو خلع کے تحت جو حق ملا ہے اسے استعمال کرنے کے لیے عدالت جانا پڑے گا۔مسلم خواتین کو یہ حق مسلم پرسنل لا (شریعت) ایکٹ 1937 کے تحت ملا ہے۔
مدراس ہائی کورٹ کے جسٹس سی سراوانن نے شریعت کونسل کی طرف سے سیدہ بیگم کو جاری کردہ طلاق کے سرٹیفکیٹ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ کونسل نے سیدہ بیگم کو خلع کے تحت یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ خاتون کے شوہر محمد رفیق نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ کونسل کی جانب سے بیوی کو جاری کیا گیا سرٹیفکیٹ قانونی طور پر درست نہیں۔ عدالت نے یہ فیصلہ رفیق کی درخواست پر دیا۔
رفیق نے دلیل دی کہ فتویٰ یا خلع جیسی چیزوں کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے احکامات کسی شخص پر نہیں لگائے جا سکتے۔ دوسری طرف شریعت کونسل نے کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اس طرح کے دستاویزات جاری کرنے کا حق ہے۔ جسٹس سی سراوانن نے نوٹ کیا کہ کیرالہ ہائی کورٹ نے صرف خلع کو برقرار رکھا ہے۔ لیکن ہائی کورٹ نے یہ نہیں کہا کہ کوئی نجی ادارہ یا فرد خلع کے ذریعے عورت کو طلاق دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے عمل کو قانونی نہیں سمجھا جا سکتا۔