سمیراتمج مشرا
کانپور میں بارہ پولیس تھانہ سے تھوڑے فاصلے پر ایک بہت بڑا چوراہا ہے ۔ چودھری رام گوپال چوراہا۔ چوراہے کے ایک طرف جانے والی سڑک کے کنارے تقریباً ایک کلومیٹر تک جھگی بستی ہے۔
اس کی شروعات میں ہی بستی کے اندر جانے پر دائیں جانب افسار احمد کا گھر ہے جن کی گزشتہ بدھ کو بجرنگ دل کے کچھ لوگوں نےپٹائی کردی تھی اور ان سے جبراً مذہبی نعرے لگوارہے تھے ۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اس واقعہ کی ویڈیو میں کچھ لوگ رکشہ ڈرائیور افسار احمد کی پٹائی کرتے ہوئے نظر آرہےہیں ۔ اس دوران بھیڑ میں کچھ لوگ ان سے ’جے شری رام ‘ کا نعرہ لگانے کو بھی کہہ رہے ہیں۔
وائرل ویڈیو میں رکشہ ڈرائیور کی سات سال کی چھوٹی بچی اپنے والد سے لپٹی ہوئی ہے اور وہ بھیڑ سے اپنے والد کو چھوڑ دینے کی التجا کرتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔ ویڈیو میں یہ بھی دکھ رہاہے کہ بعد میں کچھ پولیس اہلکار اس رکشہ ڈرائیور کو اپنی جیپ سے لے جارہے ہیں، حالانکہ جب افسار احمد کو بھیڑ کے ذریعہ پیٹا جا رہا ہےتو اس دوران پولیس کے لوگ بھی وہاں موجود ہے ۔
ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے اتر پردیش کی یوگی حکومت اور مرکز کی مودی حکومت کی مذمت شروع کر نے لگے اور اس ویڈیو میں ملوث لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ شروع کر دیا۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اس معاملے میں مقدمہ درج کرنے کے بعد پولیس نے جمعرات کی رات تین ملزمان کو گرفتار کرلیا ، لیکن چند گھنٹوں کے بعد ان سب کو تھانے سے ہی ضمانت مل گئی۔ اگلے دن یعنی جمعہ کے دن ، تین دیگر افراد پکڑے گئے۔
ویڈیو میں مارکھاتے دکھ رہے شخص کا تنازع سے کوئی تعلق نہیں
افسار احمد ای رکشہ چلاتے ہیں اور ان کا ان تنازع سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن انہیں اس وجہ سے پکڑ لیا گیا کیونکہ وہ ان لوگوں کے رشتہ دار ہیں جن کے خلاف رانی گوتم نے شکایت درج کرائی تھی ۔
افسار احمد کہتے ہیں ،’بجرنگ دل کے لوگ جب بستی میں آرہے تھے تو اسی وقت میں رکشہ کے سواریوں کو اتارنے کےبعد گھر کی جانب آرہا تھا ۔ تبھی رانی گوتم نے ان لوگوں کو بتایا کہ میں سلمان – صدام کا چچا ہوں۔ ان میں سے کچھ لوگ بغیر پوچھے مجھے مارنے لگے۔ ہیلمٹ سے بھی مارا ۔ میرےگھر کےباہر براوفات کے موقع پر لگا ہرا جھنڈ اکھاڑ دیا اور اسے جلا دیا گیا۔ مارتے ہوئے مجھ چوراہے کی جانب لے گئے جہاں پولیس والوں نے بڑی مشکل سے مجھے بچایا۔‘
آئیے پورے واقعہ کے پس منظر کو شروع سے سمجھتے ہیں۔افسار احمد کے گھر کے ٹھیک سامنے رانی گوتم کا گھر ہے، جنہوں نے اپنے ہی کچھ پڑوسیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ لوگ ان کی لڑکی کو پریشان کرتے ہیں اور ایک مہینے پہلے ان لوگوں نے عوامی طور پر مذہب تبدیل کرنے کا دباؤ بنایا تھا۔
رانی گوتم کے گھر کے سامنے اور افسار احمد کے گھر سے ملحقہ گھر رانی گوتم کی شادی شدہ بیٹی کا ہے جو اپنے پریوار کے ساتھ رہتی ہے۔ رانی گوتم کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور باقی بچے ان کے ساتھ رہتے ہیں۔
بستی میں ٹریکٹر لے جانے کولےکر تنازع شروع ہوگیا تھا
بستی کے زیادہ تر مکان کچے اور بغیر چھت کے ہیں۔ ان گھروں کے اوپر پولیتھن کی ترپال ڈلی ہے ۔ کچھ گھروں میں دیواروں کا کام بھی یہی ترپال ہی کررہی ہے ۔ تمام گھر غیر قانونی طریقے سے بنے ہوئے ہیں لیکن تمام گھروں میں بجلی کے کنکشن موجود ہے ۔
مقامی لوگوں کے مطابق یہاں کے زیادہ تر مکانات ہندوؤں کے ہیں، جبکہ 15-20 مکانات مسلمانوں کے ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے تیز بارش ہوئی تھی جس کی وجہ سے بستی کے اندر جانے والی کچی سڑک کیچڑ سے سرابور ہو چکا تھا ۔ تقریباً ایک مہینے پہلے اس راستے سے ٹریکٹر لے جانے کو لے کر تنازع ہوا تھا اور شاید وہی تنازع اس پورے معاملے کی جڑ ہے ۔
رانی گوتم کہتی ہیں ،’ان کے بچوںیہیں سے ٹریکٹر اور ای رکشہ بہت تیزی سے لے جاتے ہیں ، ہمارے گھروں کی دیوار اور انہیں سنبھالنے کے لیے لگے لڑکی کی بلیاں کئی بار ٹوٹ چکی ہے۔ مخالفت کرنے پر مارتے پیٹتے ہیں۔ ہمارے گھر کے سامنے تیز آواز میں گانا بجاتے ہیں ،لڑکیوں کو پریشان کرتے ہیں۔‘
رانی گوتم کہتی ہیں ،’9 جولائی کو یہ لوگ یہاں شراب پی رہے تھے ، ان کی ماں آئی اور ہم سے بولی کہ تم بیس ہزار روپے لے لو اور ہمارے لڑکے سے اپنی لڑکی کی شادی کردو۔ ہم نے کہاکہ ہم نہیں کریں گے ، اپنا مذہب تھوڑی نہ بدل لیں گے ۔ کہنے لگیں کہ نہیں کرو گے تو تمہیں جان سے مار دیں گے ۔ ہماری لڑکی کو گھسٹنے لگے ۔ ہم نے بڑی مشکل سے بچایا۔ پھر ہم نے پولیس بلائی تو یہ سب بھاگ گئے۔‘
پڑوسیوں کا کیا کہنا ہے؟
رانی گوتم جن لوگوں پر الزام لگا رہی ہیں وہ بھی ان کے پڑوسی ہی ہیں اور ان کے گھر بھی یہاں سے دو تین گھر چھوڑ کر آگے کی جانب ہے۔ ان میں سے سلمان ،صدام اور مکل کے خلاف رانی گوتم ایف آئی آر بھی درج کرا چکی ہیں۔
سلمان اور صدام حقیقی بھائی ہیں جبکہ مکل کا گھر ان کے سامنے ہیں۔ سلمان کی ماں قریشہ بیگم اپنے گھر کے باہر کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھی بات چیت کررہی ہے ۔ ان کے ساتھ مکل کی ماں وملا بھی ہے ۔
قریشہ بیگم کہتی ہیں :’ ایک مہینہ پہلے میرا بیٹا ای رکشہ لے کر آرہا تھا ۔ تنگ سڑک ہے ، ان کے گھر میں ذرا سا لگ گیا۔ ان لوگوں نے بیٹے کو اور ساتھ میں موجود دو دیگر لوگوں کو بہت مارا ۔پیٹا۔ پھر ہم نے پولیس بلائی اور ان کے خلاف رپورٹ درج کرائی۔ اسی وجہ سے یہ ہمیں پھنسانے کے لیے مذہب تبدیل کرنے کا الزام لگا رہی ہے ۔ آپ ہی سوچئے ، ہمارے پاس تو اپنے کھانے پینے کے پیسہ نہیں ہے ، ہم بیس ہزار روپے دے کر کسی کا مذہب تبدیل کہاں سے کرائیں گے اور کیوں کرائیں گے ؟‘
قریشہ بیگم کا کہنا ہے کہ یہ لوگ پولیس اہلکاروں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ تبدیلی مذہب کی شکایت درج کریں ، لیکن پولیس نے نہیں درج کیا ہے کیونکہ پولیس والوں کو سچائی معلوم ہے ۔ بارہ پولیس تھانہمیں تعینات کچھ پولیس افسران نام نہ شائع کی شرط پر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہی نہیں بستی کے تمام لوگ اس بات پر یقین نہیں کر پا رہے ہیں کہ کسی لڑکی کے مذہب تبدیل کے لیے دباؤبنایا گیا ہے ۔
ومالا دیوی بھی تبدیلی مذہب والی بات سے انکار کرتی ہیں۔ وملا دیوی کہتی ہے:’ ہم لوگ تو انہیں کی برادری کے ہیں، تبدیلی مذہب کی بات آتی توانہیں ہم لوگوں سے بتانا چاہئے تھا ، جس دن لڑائی ہوئی ، اس دن ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی اور ہماری جانکاری میں اس طرح کی کوئی بات پہلے بھی کبھی نہیں ہوئی ہے ۔ ومالا دیوی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اتنے ہندو پریواروں کے درمیان کوئی مسلم پریوار کسی سے جبراً ایسی بات کر بھی نہیں سکتاہے ۔ ان کے مطابق یہاں تمام لوگ غریب ہیں اور کسی طرح سے چھوٹے موٹے کام کرکے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ومالا دیوی کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں کوئی کسی کا مذہب تبدیل کرنے کے لیے بیس ہزار روپے کہاں سے دے گا۔
پولیس جانچ کررہی ہے
کانپور ساؤتھ کی ڈپٹی کمشنر پولیس روینا تیاگی کا کہنا ہے کہ رانی گوتم کے شکایتی خط میںچھیڑ چھاڑ کے ساتھ مذہب تبدیل کا دباؤ بنانے کا بھی الزام لگایا گیا ،جس کی جانچ کی رہی ہے ۔
روینا تیاگی کے مطابق ، ’ان کی شکایت پر صدام ، سلمان اور مکل کے خلاف دفعہ 354 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔ ایف آئی آر میں تفصیلات میں جبراً تبدیلی مذہب کے لیے دباؤ بنانے کا الزام لگایا گیا اور کارروائی کی مانگ کی گئی۔ اس تعلق سے جانچ کی جار ہی ہے ۔‘
جن تین نوجوانوں پر مذہب تبدیل کرنے کا الزام لگایا گیا ہے ان میں صدام کی عمر 25 سال جبکہ سلمان اور مکل کی عمر 15 سال ہے۔ مقامی تھانہ میں ان تینوں کے خلاف کبھی کوئی شکایت نہیں آئی ۔تھانہمیں تعینات ایک پولیس افسر کے مطابق ، ’ تبدیلی مذہب کا الزام پولیس کو اس لئے مشکوک لگ رہا ہے کیونکہ نوجوانوں کا نہ تو کوئی مجرمانہ ریکارڈ ہے اور نہ ہی پولیس تک ان کی کبھی کوئی اور شکایت آئی ہے ۔
بجرنگ دل کا کردار
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تبدیلی مذہب کی بات کہاں سے آئی اوربجرنگ دل کے لوگوں کے پاس یہ اطلاع پہنچی کیسے کہ کسی لڑکی کا مذہب تبدیل کرانے کے لیے دباؤ بنایا جا رہاہے ۔ بستی میں ایسا کوئی بھی شخص نہیں ملا جس کا بجرنگ دل سے تعلق ہو۔
بجرنگ دل سے وابستہ درگا واہنی کی صوبائی کوآرڈی نیٹر روبی سنگھ کا کہنا ہے کہ پولیس والوں نے جب ان کی شکایت نہیں سنی تو وہ بہنیں ہمارے پاس آئی اور ہم نے دیکھا کہ مسلم لڑکے کس طرح سے اور لگاتار پریشان کر رہے ہیں ۔ پولیس نے اگر کارروائی کی ہوتی تو بجرنگ دل کو درمیان میں آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لیکن اگر پولیس کارروائی نہیں کرے گی تو بجرنگ دل کے لوگ خود اپنی بہنوں کی حفاظت کے قابل ہے ۔
حالانکہ رانی گوتم اس بات سے انکار کرتی ہیں کہ وہ خود بجرنگ دل کے لوگوں سے ملی تھیں، ان کا کہنا ہے کہ پولیس میں شکایت کرنے جب وہ گئی تھی تو وہیں بجرنگ دل کے لوگ ملے اور ہماری مدد کرنے کی بات کہی ۔ بدھ کو بجرنگ دل کے تمام کارکنان نے رام گوپال چوراہے پر میٹنگ کی اور پولیس پر کارروائی کا دباؤ بنایا۔ اسی دوران کچھ لوگ بستی کے اندر ملزمین کی تلاش میں آگئے۔
پولیس کا کردار
اس معاملے میں پولیس کی غیر فعال ہونے کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کیونکہ جب افسار احمد کو مارا پیٹا جا رہا تھا پولیس کچھ فاصلے پر تھی۔ یہاں تک کہ ویڈیو میں پولیس کی موجودگی میں افسار کی پٹائی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ، جمعرات کی رات اس واقعے کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی اور تین لوگ گرفتار بھی کئے گئے ، لیکن رات میں ہی انہیں تھانہ سے ضمانت مل جانے کو لے کر بھی پولیس سوالوں کے گھرے میں ہے ۔
قریشہ بیگم اور رانی گوتم کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف درج ایف آئی آر پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
قریشہ بیگم نے 12 جولائی کو ایف آئی آر درج کی تھی اور رانی گوتم نے صدام ، سلمان اور مکل کے خلاف 31 جولائی کو مقدمہ درج کیا تھا۔
گووند نگر کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس اس کی وجہ بتاتے ہیں :’ دونوں معاملوں میں جو دفعات لگی ہیں ، سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق ان میں کسی کی گرفتاری نہیں ہو سکتی ہے۔ تفتیش جاری ہے ۔ شواہد اور گواہ جمع کئے جارہے ہیں ۔ اس کے بعد اگر کچھ اورثبوت ملے تو چارج شٹ لگا دیں گے ۔ ورنہ فائنل رپورٹ لگا دیں گے ۔‘
حالانکہ ایک پولیس افسر نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ رانی گوتم کی جانب سے درج ایف آئی آر میں مذہب تبدیل کی دفعہ اس لئے نہیں جوڑی گئی کیونکہ انسپکٹر ٹریننگ کے لیے باہر چلے گئے ہیں۔ ان کے مطابق جب تنازعہ بڑھ گیا تو انسپکٹر کو بدل دیا گیا۔
مقامی لوگوں اور جانکاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ بالکل آپسی تنازع کا تھا لیکن بجرنگ دل کے کارکنان کے اس میں آنے کے بعد یہ بڑا تنازع بن گیا۔ کانپور میں سینئر صحافی پروین مہتا کہتے ہیں کہ ’’ 1990 کےدہائی کے دوران یہاں پرکاش شرما بجرنگ دل کے لیڈر ہوتے تھے اور تب اس کی سرگرمی کافی زیادہ تھی ، لیکن ان کے بی جے پی میں جانے کے بعد بجرنگ دل کی سرگرمی کافی کم ہو گئی۔
گزشتہ کچھ سالوں میں سرگرمی پھر بڑھی ہے ، اسی سال جون مہینے میں کرنل گنج علاقے کی دلت بستی میں بھی اسی طرح کا واقعہ ہوا تھا۔ وہاں بھی آمنے – سامنے رہنے والوں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آپسی جھگڑے نے فرقہ وارانہ شکل اختیار کرلی تھی۔ لیکن پولیس نے اس وقت سنبھال لیا تھا ۔ اس وقت بھی بجرنگ دل کے لیڈروں کے آنے کے بعد تنازع بڑھ گیا تھا۔
اس واقعہ کے بعد بجرنگ دل نے مسلمانوں کے خوف سے ہندوؤں کے نقل مکانی کا بھی الزام لگایا تھا لیکن پولیس کی جانچ میں اس طرح کی کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا تھا۔
(بشکریہ : بی بی سی )