نئی دہلی : (ایجنسی)
بغاوت اور غیر قانونی سرگرمیاں( روک تھام )ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت ملزم جے این یو کے طالب علم شرجیل امام نے کہا کہ وہ کوئی دہشت گرد نہیں ہے اور اس کے خلاف مقدمہ قائم کرنا قانون کے مطابق نہیں بلکہ کسی ایک سمراٹ کے چابک کی طرح ہے۔ یہ دلیل شرجیل نے اس کیس میں ضمانت اور ڈسچارج کا مطالبہ کرتے ہوئے دی۔
دہلی پولیس نے شرجیل امام کو سی اے اے ؍ این آر سی کی مخالفت میں مظاہروں کے دوران مبینہ اشتعال انگیز بیان دینے کے الزام میں جنوری 2020 میں گرفتار کیا تھا۔ اس کے خلاف چارج شیٹ داخل ہوچکی ہے۔ الزام ہے کہ اس نے 2019 میں اپنی تقریروں میں مبینہ طور سے آسام اور شمال مشرق کے دیگر حصوں کو ملک سے الگ کرنے کی دھمکی دی تھی۔
یہ مبینہ تقریریں اس نے 13 دسمبر 2019 کو جامعہ میں اور 16 دسمبر 2019 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کی تھیں۔ وہ جنوری 2020 سے عدالتی تحویل میں ہے۔کڑ کڑڈوما عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج امیتا بھ راوت کے سامنے معاملہ کی سماعت ہورہی ہے ۔
شرجیل کی جانب سے وکیل تنویر احمد میر نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی مذمت کرنا غداری کے مترادف نہیں ہوسکتا۔ اس پورے مقدمے کا خلاصہ یہ ہے کہ تم ہمارے خلاف بولوگے ، تم پر غداری کا مقدمہ کیاجائے گا۔ ان کے موکل نے سی اے اے – این آر سی کی مخالفت کی، صرف اس کے لیے اس پر تشدد نہیں کیا جاسکتا۔
میر نے کہا کہ شرجیل کے خلاف یہ مقدمہ قائم کرنا قانون کے مطابق نہیں بلکہ کسی سمراٹ کے چابک کی طرح ہے ۔ حکومت یا ایگزیکٹیو اس طرح کا رد عمل ظاہر نہیں کر سکتے۔ بالآخر نظام بدل جائے گا ، کیونکہ کچھ بھی مستقل نہیں ہے۔ احتجاج کرنے والے کسانوں کے حالیہ بھارت بند کا حوالہ دیتے ہوئے میر نے پوچھا کہ کیا ہم ان تمام معاملات میں بھی غداری کا مقدمہ دائر کریں گے؟ ریل روکوآندولن، سڑک جام وغیرہ کرنا کیا احتجاج کے آئینی طریقے نہیں ہے؟ اگر کسان اپنی فصل کی قیمت مانگتے ہیں یا لوگ خواتین کے لئے حقوق کی مانگ کرتے ہیں تو کیا ان پر غداری کا مقدمہ لگے گا؟
میر نے کہا کہ حکومت کی مذمت کرنا ہر شہری کا فرض ہے۔ حکومت کوکہاں لوگوں کے پیار کی ضرورت ہو تی ہے ۔ صرف سمراٹوں اور راجاؤں کو لوگوں کے پیار کی ضرورت ہو تی ہے۔ ہم لوگ صرف سرکار کے سامنے سر جھکانے کے لیے نہیں ہیں۔ اگر سماج میں مذمت کرنے کا جذبہ نہیں ہوگا تو معاشرہ مرجائے گا۔ وکیل نے کہاکہ امام کے خلاف کئی مقدمے لگادئےگئے، کیونکہ اس نے سرکار کی پالیسیوں کی مخالفت کی۔ وہ کوئی دہشت گرد نہیں ہے، نہ کسی دہشت گرد تنظیم سے جڑا ہے ۔ اس کاکوئی کرائم ریکارڈ نہیں ہے، اس کاکوئی سیاسی ایجنڈہ بھی نہیں ہے ۔
اس کی مخالفت میں اسپیشل پبلک پراسیکیوشن افسر امت پرساد نے کہاکہ مخالفت کرنے کابنیادی حق صرف وہاں تک ہے جہاں اس سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔ امام کی تقریروں کے بعد پر تشدد فساد ہوئے۔ مسلمانوں کے لئے کوئی امید نہیں ہے اوراب کوئی راستہ نہیں بچا ہے ،یہ کہہ کر انہوں نے انتشار پھیلانے کی کوشش کی ۔